Aladdin Aur Uska Bujha Chiragh
الہ دین اور اس کا بجھا چراغ

جمعیت علما اسلام کے فضل الرحمٰن کے والدِ محترم مفتی محمود کی سیاست بے شک اصولی رہی ہوگی۔ خود فضل الرحمٰن نے بھی اپنی جوانی میں مارشل لا مخالف ایم آر ڈی جیسی جمہوریت پسند تحریکوں کا ساتھ دیا ہوگا۔ مگر آج مولانا کی تصویر یوں ہے کہ وہ عملی سیاست کے ماہر کھلاڑی ہیں۔ اعصابی تناؤ سے دور ہیں۔ اسی لیے بیک وقت پانچ گیندیں ہوا میں اچھال سکتے ہیں اور کبھی گرنے نہیں دیتے۔ لفافہ دیکھ کے خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں۔ کسی بھی فائدہ مند سودے بازی میں اپنے قریبی عزیز و اقارب و سگے بھائیوں کو بھی برابر کا حصہ دار بناتے ہیں۔ شکار اور شکاری کے ساتھ بیک وقت دوڑنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں اور بوقت ضرورت وضع داری و سہولت برقرار رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے بھی کام آ جاتے ہیں۔
جب پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ سرمایہ داری و جاگیر داری کے خلاف "اینٹی اسسٹیٹس کو" جماعت کا رنگ لیے ابھری۔ اسی سانچے میں پارٹی ورکرز کو بھی ڈھالا گیا۔ یہ جماعت پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا تاثر برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ مگر مشرف کے این آر او کو قبول کرنے کے بعد ایک نئی چھاپ چپکنی شروع ہوگئی کہ وہ والی پیپلز پارٹی عوامی امنگوں کی ترجمان تھی۔ یہ والی پیپلز پارٹی نہ بائیں کی رہی نہ دائیں بازو کی بلکہ دھنئے کا شربت پی ہوئی ایک ہومیوپیتھک جماعت ہے۔ بینظیر کی شہادت کے بعد قیادت زرداری صاحب کی جھولی میں آن پڑی اس کے بعد سے اس کی قیادت ذاتی "سٹیٹس کو" کا تحفظ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ علامتی طور پر ملک گیر مگر عملاً صوبائی جماعت بن کر رہ گئی ہے۔
مسلم لیگ نواز آغاز سے ہی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔ اس کے اکثریتی شیئرز ایک ہی خاندان کے پاس ہیں۔ شروع میں اس پر ضیا کا سٹیکر لگا ہوا تھا اور جونیجو لیگ سے نکال کر اسے پیپلز پارٹی کو وٹہ مارنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ مگر تیسری بار اقتدار سے محرومی کے بعد اس کی قیادت نے کچھ عرصے کے لیے چی گویرا اور منڈیلا بننے کی کوشش کی۔ لیکن اب دوبارہ اس مصرعے کی قائل ہوگئی ہے کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے۔ سیاست میں گر رہنا ہے تو جئیے جرنیل کہنا ہے۔
پاکستان میں پچھلے چالیس برس میں کئی مد و جزر آئے مگر کوئی طوفان بھی نونی خاندان کا اندرونی اتحاد نہ توڑ سکا۔ پارٹی سٹرکچر بہت سادہ اور نظامِ شمسی کے اصول پر استوار ہے۔ ایک سورج اور اس کے گرد گھومتے گوجرانوالہ کے مریخ، سرگودھا کے عطارد، سیالکوٹ کے پلوٹو، گجرات کے نیپچون، فیصل آباد کے زحل اور لاہور کے زہرہ وغیر وغیرہ۔
پاکستان تحریکِ انصاف جب عوامی سطح پر متعارف کروائی گئی تو اسے عسکری اسٹیبلشمنٹ کی تازہ فخریہ پیش کش اور ملکی مسائل کے حل اور سیاسی گند کی صفائی کرنے والا الہ دین ٹائپ چراغ بتایا گیا۔ مگر پونے چار برس کے اقتدار میں ہی یہ فخریہ پیش کش ایسا کمبل بن گئی جس سے اسٹیبلشمنٹ جان چھڑانا چاہتی تھی لیکن کمبل جان نہیں چھوڑ رہا تھا۔ نو مئی کے بعد سے پی ٹی آئی کی کمبل کٹائی بھی لگاتار جاری ہے۔ الہ دین اندر ہے اور چراغ باہر اور وہ بھی بجھا بجھا سا اور چراغ کا جن جنرل فیض اگلوں کے قبضے میں۔ پہلے اس پر اسٹیبلشمنٹ نواز ہونے کی چھاپ تھی فی الحال اس پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کی چھاپ ہے۔ پاکستان میں وقت اور چھاپ بدلتے دیر کہاں لگتی ہے۔
جوتیوں میں دال بٹنا کسے کہتے ہیں آج اس کی عملی تفسیر پی ٹی آئی ہے۔ عمران خان صاحب معیشت بن چکے ہیں۔ کیا یوٹیوبرز اور ایکسئیے اور کیا وکلاء اور سیاستدان۔ ہر کوئی انہیں بیچ رہا ہے اور اپنا دھندا چلا رہا ہے۔ ایک تہائی پارٹی علیمہ خان کے زیر اثر ہے۔ ایک تہائی گنڈاپور کے پاس پڑی ہے اور ایک تہائی سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر گوہر، بشری بی بی اینڈ کمپنی وغیرہ کے پاس تقسیم ہے۔ ان سب گروہوں کی ایک دوجے سے ناراضگی ہے۔ ہر کوئی جماعت کے اندر اختیار کی جنگ لڑنے میں لگا ہے۔ نتیجتہً گھڑ سواروں میں ایسا گھمسان کا رن پڑا ہے کہ گھوڑا اوپر ہے سوار نیچے۔
گذشتہ تین سالوں میں یوں ہوا کہ ریاستی ڈنڈا پی ٹی آئی کے سر پر پڑتا رہا اور "نظریاتی" لوگ تتر بتر ہو گئے۔ بائیس سالہ جدوجہد کے دعوؤں ساتھ جو جماعت کھڑی ہوئی وہ ایک ڈنڈے کی مار پر بیانِ حلفی دے کر پتلی گلی سے نکل لی۔ محمود الرشید، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد، قریشی اور سرفرار چیمہ سے چند لوگ رہ گئے جو آج بھی ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسا اس واسطے ہوا تحریک انصاف کو حریف جماعتوں سے توڑ کر کھڑا کیا گیا۔ نون لیگ، پیپلز پارٹی، ق لیگ وغیرہ وغیرہ سے لوگ اس جماعت میں بارش کی طرح برس کر آتے رہے۔ ایک وقت وہ آ گیا تھا جب پی ٹی آئی کے پاس "الیکٹ ایبلز" اتنے زیادہ تھے کہ پاکستان میں اتنے حلقے نہیں تھے۔ سب کو ٹکٹس جاری نہیں ہو سکتے تھے۔ اس زمانے میں عمران خان صاحب نے پکے منہ سے کہہ دیا تھا " کیا کریں مجبوری ہے۔ الیکٹ ایبلز کے بنا آپ الیکشن جیت نہیں سکتے"۔
یہ نظریات کی دوڑ نہیں تھی۔ یہ حوالدار بشیر کی سیٹی تھی جو سب کو جمع کر رہی تھی۔ پھر اگلے پونے تین سال منورجن پروگرام چلا۔ آج کو حال ہے اس پر کچھ مزید کہنا الفاظ کا ضیاع ہے۔ کیا عجب بات ہے کہ جب ہم کسی تقریب کے لیے تنبو، قنات، کراکری، کرچھے، دیگیں، دریاں، پنکھے، واٹر کولر، کرسیاں اور میزیں کرائے پر لیتے ہیں تو انہیں گن کے واپس کرتے ہیں۔ لیکن جب اقتدار کا منڈپ سجانے کے لیے بندے کرائے پر لیتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ یہ کرائے کے لوگ ہیں۔ انہیں واپس بھی لوٹانا ہے۔
مجھے ہمدردی ہے ان سب سے جو نواز شریف میں کوئی لینن، انگشتِ شہادت کو آواز کی رفتار سے ہلانے والے شہباز شریف میں کوئی منڈیلا، زرداری میں کوئی کاسترو، مولانا فضل الرحمان میں کوئی ماؤزے تنگ اور عمران خان میں کوئی خمینی تلاش کرتے ہیں۔ جب تک یہ جماعتیں ون مین شو کی بجائے بحثیت پارٹی اپنا اندرونی سٹرکچر مضبوط جمہوری بنیادوں پر استوار کرکے اسے قبیلے کی بجائے ایسے جسم میں نہیں ڈھالتے جس میں نیا خون بنتا اور گردش کرتا رہے تب تک یہ سب مہلک قسم کی بیماریوں کا شکار رہیں گی اور اسٹیبلشمنٹ ان کی اسی دلجمعی سے باری باری عیادت و مرمت کرتی رہے گی۔

