Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Al Haj Muhammad Noor Ul Deen Sheikh

Al Haj Muhammad Noor Ul Deen Sheikh

الحاج محمد نور الدین شیخ

گذشتہ سال کا ذکر ہے۔ میرے گھر سے دائیں ہاتھ دو گھر چھوڑ کے الحاج محمد نور الدین شیخ صاحب بستے ہیں۔ شیخ صاحب سے میری دوستی ہے۔ بہت اچھی دوستی ہے۔ شیخ صاحب کی عمر ہے باسٹھ سال مگر دل سے وہ آج بھی جوان شیخ ہیں۔ عید سے ایک ہفتہ قبل شیخ صاحب نے بیل خریدا۔ جیسے ہی میں اپنے گھر کے باہر گاڑی سے اترا۔ آواز آئی " شاہ پتر۔ کیسا اے؟

وہ مجھے بیل دکھانا چاہتے تھے۔ میں ان کی جانب چل پڑا۔ خوبصورت بیل تھا۔ شیخ صاحب نے قیمت بھی بتانی تھی وہ بھی بتا چکے تو میرا چہرہ دیکھنے لگے۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ قیمت سن کر مجھے مزید تعریف کرنی ہے چپ نہیں رہنا۔ بہت اعلی، یہ تو آپ کو مناسب دام مل گیا، ایسا تگڑا بیل اور اس قیمت پر۔ اعلی، ہر سال قربانی کر کے بندہ تجربہ کار ہو جاتا ہے پتر، جانور خریدنا بھی ایک فن ہوتا ہے۔

مگر اس کے لئے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ منڈی منڈی چکر لگانا پڑتا ہے " شیخ صاحب خوش ہو گئے۔ سات روز روزانہ آتے جاتے میں شیخ صاحب کو ان کے بیل کے ہمراہ ہی دیکھتا رہا اور روز کوئی نہ کوئی تعریفی جملہ ارشاد کرتا رہا۔ وہ سن کر باغ باغ ہو جاتے۔ گلی میں کوئی آٹھ گھر ہیں۔ باقی سب حضرات نے بکرے لئے ہیں۔ واحد بیل شیخ صاحب کا تھا۔

شیخ صاحب کی جتنی قربت مجھ سے ہے شاید ہی گلی میں موجود کسی اور سے ہو حالانکہ وہ سب ان کے ہم عمر ہیں اور میں ان کے بچوں جیسا، قربانی تو سب نے کی، قربانی کے پیکٹ آتے جاتے رہے۔ میں نے نجانے کیوں اور کیسے سوچ لیا تھا کہ بیل کا گوشت آیا تو اس کے تکے بنائے جا سکتے ہیں۔ میں تو ذرا دوپہر کو سو گیا۔ آنکھ لگ گئی۔ دو گھنٹے بعد جاگا تو بیگم کو کہا۔

شیخ صاحب کی قربانی ہو چکی کہ ابھی کام جاری ہے؟ اس نے مجھے دیکھ کر قہقہہ لگایا۔ کچن میں گئی اور ایک شاپر اٹھا لائی۔ یہ لیں آپ کے بیل کے تکے، اس نے قہقہہ لگاتے میرے سامنے شاپر رکھ دیا، میں نے شاپر دیکھا، اس میں موجود چار عدد بوٹیاں دیکھیں۔ دل نے کہا کہ شیخ صاحب کو غلطی لگ گئی ہے شاید مگر آنکھوں و دماغ نے کہا کہ غلط فہمی تم کو لگ گئی تھی باقی یہی حقیقیت ہے۔

بیگم، ہنسنے والی کیا بات ہے؟ قربانی غرباء کے واسطے ہوتی ہے۔ انہوں نے بانٹ دیا ہو گا مساکین میں، اچھا کیا، تم کو بس مجھ پر ہنسنے کا بہانہ چاہییے۔ میں نے بیگم کی ہنسی گل کرنا چاہی۔ ہاں ہاں، بالکل شاہ صاحب، میں تو بس یہ کہنے لگی تھی کہ تکے بنانے ہیں تو کوئلہ لے آئیں۔ اتنی دیر میں انگیٹھی و سیخیں صاف کر دیتی ہوں وہ بدستور مزاق کے موڈ میں تھی تو میں زرا باہر گلی میں نکل گیا۔

قصہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ المیہ تو یہ ہوا کہ شیخ صاحب گھر کے باہر واقع لان میں کرسی ڈالے خون آلود کپڑوں میں بیٹھے تھے۔ انہوں نے دور سے آواز دی۔ شاہ پتر، بہت ودھیا بھارو سی، ماشاءاللہ واوا گوشت نکلیا سی، سواد آ گیا اس بھارو دا، پیسے حلال کر گیا۔ شیخ صاحب موج میں تھے۔ میں نے گھر کے کھلے مرکزی دروازے سے اندر دیکھا تو گیراج میں کٹے ہوئے گوشت کے پہاڑ لگے تھے۔

جن سے چھوٹے شیخ یعنی ان کے نواسے چھوٹے چھوٹے شاپروں میں ڈالتے کھیل رہے تھے۔ ظالم اک دوجے کو شرارت میں بوٹیاں مار رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر تو دل مزید اداس ہو گیا۔ ماشاءاللہ شیخ صاحب۔ بہت اعلی جانور تھا، مبارک ہو، مجھ سے بمشکل اتنا ہی کہا گیا اور گھر پلٹ آیا۔ اس سال شیخ صاحب نے پھر بیل لیا ہے۔ لیکن اس سال بوجوہ مصروفیت نہ میں ان کے متھے لگا اور نہ ہی بیل کی شان میں ان کی فرمائش پر کوئی قصیدہ کہا۔

حالانکہ دو بار چھوٹا شیخ (شیخ صاحب کا نواسہ) گھر پیغام دے گیا کہ نانا ابو کہہ رہے ہیں، شاہ جی گھر آئے تو انہیں کہنا کہ چکر لگائیں۔ بس صاحبو، میں بہت خود غرض ہو چکا ہوں۔ مجھ سے اپنا دل بار بار ہر سال شیخ صاحب کے ہاتھوں نہیں تڑوایا جاتا، دل ہے کوئی کھلونا تھوڑی ہے۔ بیگم البتہ چونکہ یومِ الست سے آج تک کی کوئی بات نہیں بھولتی۔ بیگمات کی یادداشت بہت تیز ہوا کرتی ہے۔

حتیٰ کہ ان کو یہ تک یاد رہ جاتا ہے کہ کس موقع پر، کس دن، کونسا معمولی و غیر اہم واقعہ رونما ہوا تھا جس کے سبب ان کا دل ٹوٹا تھا۔ تو صاحبو بیگمات چوٹ کرنے کا موقع کہاں جانے دیتی ہیں۔ مولا بھی اپنے بندوں کو کیسے کیسے آزماتا ہے۔ ابھی کچھ دیر قبل کہہ رہی تھی، شاہ صاحب، کل شام بیل کے تکے بنانے کا موڈ ہے تو انگیٹھی و سیخیں صاف کر کے رکھ دوں۔

Check Also

Apna Ghar

By Javed Ayaz Khan