Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aj Te Kal Vi Vech Gaye Ne

Aj Te Kal Vi Vech Gaye Ne

اج تے کل وی ویچ گئے نیں

خیبرپختونخوا میں چالیس ارب سے زائد کا میگا کرپشن سکینڈل پر نیب نے تحقیقات کا آغاز کرکے اس پر کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ سنہ 2019 سے 2024 کے بیچ کوہستان کے فنڈز سے پیسہ جعلی کمپنیوں اور جعلی پراجیکٹس کے نام پر نکلوایا گیا۔ تین سرکاری محکمے اس میں شامل رہے۔ اب تک اس کیس میں مجموعی طور پر25 ارب روپے مالیت کے اثاثے برآمد اور منجمد کیے گئے ہیں۔

جن میں لگژری بنگلے، 94کروڑ مالیت کی 77 قیمتی گاڑیاں، ایک ارب روپے نقد، غیر ملکی کرنسی اور تین کلو سونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ 73 بینک اکاؤنٹس میں موجود 5 ارب روپے منجمد، 30 مکانات، 25 فلیٹس اور 4 فارم ہاؤسز بھی نیب نے ضبط کرلئے ہیں۔ مزید برآں 109 جائیدادیں بھی مختلف شہروں بشمول اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے قبضے میں لی گئی ہیں۔ ان میں 4 فارم ہاؤسز، 12 کمرشل پلازے، 2 کمرشل پلاٹس، 30 مکانات، 12 دکانیں اور فوڈ کورٹس، 25 فلیٹس اور پینٹ ہاؤسز اور 175 کنال زرعی اراضی شامل ہیں۔ ان جائیدادوں کی مجموعی مالیت تقریباً 17 ارب روپے بتائی جا رہی ہے۔

یہ بہت بڑا فراڈ انتہائی چالاکی سے اور صوبائی حکومت کے واضح گٹھ جوڑ کے ساتھ رچایا گیا ہے۔ اس میں سرکاری اہلکار بطور فرنٹ مین، جعلی کمپنیوں کے ٹھیکیدار، چیک پر رقوم جاری کرنے والے خیبر پختونخوا کے سرکاری بینک "بینک آف خیبر" کے افسران شامل ہیں۔ نیب نے کوہستان سکینڈل میں ملوث کنٹریکٹر محمد ایوب کو گرفتار کرلیا ہے ملزم کے اکاؤنٹ میں تین ارب روپے ٹرانسفر ہوئے تھے جبکہ ملزم نے کرپشن کی رقم سے اعظم سواتی کا گھر بھی خریدا تھا۔ ایک صوبائی ادارے C&W کے ڈرائیور کے اکاؤنٹ سے پانچ ارب برآمد ہوئے ہیں۔

مجموعی طور پر کرپشن کا تخمینہ چالیس ارب لگایا گیا ہے جن میں سے تاحال پچیس ارب نقد، گاڑیوں، جائیدادوں کی ضبطگی کی صورت برآمد ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ 2019 سے 2024 تک جاری رہا ہے۔

اس ملک میں کوئی مرکزی پارٹی جو حکومتوں کا حصہ رہی یا ہے اور ان کے قائدین کرپشن سے پاک نہیں۔ مسئلہ بس یہ ہے کہ کارکنان اس گدھے کی مانند ہیں جن کی آنکھوں پر کھوپے چڑھا دیے جاتے ہیں اور وہ پارٹی ریڑھے کو کھینچنے کی مشقت میں دن رات لگے رہتے ہیں۔

کرپشن اس ملک میں نظام کا حصہ بنا دی گئی ہے۔ سسٹمیٹک کر دی گئی ہے اور یہ سب اس سسٹم کے بینیفشری، اس سسٹم کے پروردہ اور اس سسٹم کا پرزہ ہیں۔ یہ خود سسٹم ہیں۔ یہ سٹیٹس کو ہیں۔ ملک ڈوبتا گیا اور ان کے نجی کاروبار اور دولت میں برق رفتاری سے اضافہ ہوتا گیا۔ ان سے زیادہ کرپٹ بیوروکریسی ہے۔ بابو کریسی ہی سیاستدانوں، وزیروں مشیروں کو سسٹم کے لوپ ہولز سے آشنا کراتی ہے۔ بیوروکریسی سے زیادہ کرپشن ان کی ہے جو رئیٹارمنٹ پر بھی اربوں کے اثاثے لے جاتے ہیں اور بیرون ممالک میں نوکری بھی تلاش کر لیتے ہیں۔ جو خود کو ہی ریاست ڈکلئیر کر دیتے ہیں۔

جب میں یہ نان سینس سنتا ہوں کہ ہم تو صاف شفاف ہیں ہمارے مخالفین کرپٹ ہیں تو ہنس ہی سکتا ہوں ناں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ اس ملک میں کرپشن پر بات کرنا فضول اور یہ بحث ہی بیکار ہے۔ یہاں نیچے سے اوپر تک سب بمطابق اپنے جثے، عہدے اور اختیار کے سسٹمیٹک کرپشن کا حصہ ہیں۔ بیزاری تو مجھے تب ہوتی ہے جب کوئی اس حقیقت کا ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنی سیاسی وابستگی کے سبب خود پر یا جماعت پر تقدیس کی چادر چڑھانے لگتا ہے۔ اسے مقدس ماننے لگتا ہے۔

"صاف چلی شفاف چلی" سے لے کر "قرض اتارو ملک سنوارو" تک اور "اومنی گروپ سکینڈل" سے لے کر "پاپا جونز اور فرانسیسی آبدوز سکینڈلز" تک یہاں قدم قدم پر لوٹ مار کی داستانیں رقم ہیں۔ لیکن کرپٹ بس سیاسی مخالف ہی ہے۔ کیا چھوٹا یا برا افسر، کیا سیاسی و عسکری قیادت، ائیرپورٹ پر غیر ملکیوں کا پرس چراتے اہلکار تا غیر ملکی تحائف چراتی خاتون اول تک۔ اس پرچم کے سائے تلے سب ایک ہیں۔ پھر منو بھائی کی نظم یاد آ جاتی ہے۔

ساڈے گھر وچ ڈاکے وجے
ساڈیاں نیہاں پُٹیاں گئیاں

ساڈے ویہڑے لاشاں وچھیاں
ساڈیاں عزتاں لٹیاں گئیاں

راتوں رات امیر بنن دے
سفنے جواء کھیڈ رہے نیں

خواباں دے سوداگر ساڈا
اج تے کل وی ویچ گئے نیں

منڈی پیسہ پیسہ کر دی
سارے رشتے توڑ رہی اے

چادر، چار دیواری اندر
اپنیاں لیراں جوڑ رہی اے

راہداری دے ٹول پلازے
تھاں تھاں لگے پلس دے ناکے

سوئزرلینڈ دی سیر کراندے
بینکاں تے اشراف دے ڈاکے

کیہڑی ہور شہادت لبھئیے
کیہڑی ہور گواہی پائیے

ایس تباہی، بربادی دا
کیہڑا ہور ثبوت لیائیے

احتساب دے چیف صاحب بہادر!
ویسے تہانوں وی پتہ تے ہونا اے

تریہہ کنالاں دی کوٹھی وچ
ست پجیرو، چار کلاشنکوفاں

چالی کتے، پنجھی نوکر، ویہہ کنیزاں کتھوں آئیاں
کتھے لگیاں ایہہ ٹکسالاں

دیس پرائے بنیاں چیزاں کتھوں آئیاں
کتھوں آئیا چٹا پوڈر، کالی دولت کتھوں آئی

کتھوں آئے پرمٹ، لیزاں کتھوں آئیاں
اسی وچارے بوہڑاں تھلے

اگن والی گھاء دے تیلے
دھپ تے میہنہ نوں ترس گئے آں

لکھ کروڑاں دا کیہہ کہنا
دس تے ویہہ نوں ترس گئے آں

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam