Tuesday, 07 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Ab Koi Aur Zakhm Na Kha Lena

Ab Koi Aur Zakhm Na Kha Lena

اب کوئی اور زخم نہ کھا لینا

میں نے بہت غور سے نوٹ کیا ہے اور میری ساری عمر کا نچوڑ ہے کہ جو لوگ اردو بولتے ہوئے پولیس کو پُلس، گوشت کو گووشت، مین سوئچ کو میم سوئچ، دال چاول کو دال چول، رکشے کو رشکا، پنکھے کو پکھا، چائے کو چا، بولتے ہیں وہی ناہنجار مجھے مہدی کی بجائے مہندی بلاتے ہیں، اور غصہ مجھے اس وقت دُگنا آتا ہے۔ جب آگے صاحب کا اضافہ کر دیتے ہیں۔

مہندی صاحب، ابے بھینس کی دم یا تو نام صحیح پکارو یا اس کے ساتھ صاحب نہ لگاؤ۔ سننے میں ہی انتہائی نامناسب لگتا ہے۔ مہندی صاحب، میرے نام کے ساتھ یہ مسئلہ بچپن سے ہی رہا ہے۔ سکول میں یار دوست کچھ تو لاعلمی میں مہندی پکارتے تھے اور کچھ جان بوجھ کر نام بگاڑ کر بلاتے تھے۔ مجھے تب بھی غصہ آیا کرتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے، اب میں اکیلا ساری کلاس سے دھینگا مشتی تو نہیں کر سکتا تھا۔

لہذا صبر کے گھونٹ پی لیتا، پاک فوج کے زیر انتظام نیو کینٹ پبلک سکول ہوا کرتا تھا۔ یہ مخلوط تعلیم کا سکول تھا۔ آٹھویں کلاس میں پہنچا تو شبنم مونیٹر بنی۔ صرف شبنم واحد انسان تھی، جو جب ڈانٹ کر کہتی " مہندی شور نہ کرو ورنہ میں ٹیچر کے آنے پر تمہاری شکایت لگا دوں گی" تو میں اسی وقت چپ کر جاتا۔ دراصل اس کے منہ سے مہندی جچتا بھی بہت تھا۔

ہر بار وہ میرا نام لکھ لیتی اور جب ٹیچر آتی اسے لسٹ پیش کر دیتی۔ یوں ٹیچر کے ہاتھوں میری شامت آ جاتی۔ ایک دن ٹیچر نے برائے اصلاح شبنم کو کہا " شبنم بیٹا، مہندی نہیں مہدی لکھتے ہیں۔ تم اپنی املاء درست کر کے لکھا کرو۔ اور یہ تم نے فرقان کو ڈنڈے والے قاف سے فرکان لکھا ہوا ہے۔ یہ بھی غلط ہے" شبنم نے سُن کر جواب دیا " میڈم، یہ تو مجھے شکل سے ہی مہندی لگتا ہے اور فرقان تو کتے والے قاف سے ٹھیک لگتا ہے۔ کمینہ"

اس دن کے بعد سے جب اس نے مجھے مہندی کہا میرا ضبط جواب دے گیا اور میں نے اسے جواب میں کہا " شبو تم نے جو کرنا ہے کرو" وہ یکدم غصے میں آئی" شبو کسے کہا؟ میں نے بھی لال سرخ ہوتے جواب دیا " تم مجھے مہندی کہو گی تو میں تمہیں شبو کہوں گا" کلاس کے سارے بچے قہقہہ لگانے لگے کیونکہ مونیٹر سے تو سب کو خدا واسطے کا بیر یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ ٹیچر کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے اور کلاس پر بے جا سختی بھی کرنے لگتا ہے۔

جب شبو کا کافی مزاق بن گیا اور باقی کلاس بھی اسے شبو کہنے لگی تو ایک دن لنچ بریک میں شبو میرے پاس آئی۔ میں گراؤنڈ میں دوستوں کے ساتھ والی بال کھیل رہا تھا۔ شبو نے مجھے آواز دی "مہدی"۔ میں نے سن کر اسے دیکھا اور بہت خوش ہوا کہ آخر کار اس نے میرا صحیح نام پکار ہی لیا۔ اس دن شبو نے مجھ سے سوری کی اور وہ پھر سے شبنم بن گئی اور میں مہدی ہو گیا۔

مگر کلاس کے باقی بچے تو باز نہیں آ رہے تھے۔ مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ جو کتے کے قاف والا فرقان تھا، وہ Bully بچہ تھا۔ یعنی بدمعاش، اس کی بدمعاشی یہ ہوا کرتی کہ وہ شارپنر سے بلیڈ کا پیچ کھول کر بلیڈ الگ کر لیتا اور اسے جیب میں رکھا کرتا۔ اسی بلیڈ سے وہ باقی بچوں کو ڈراتا کہ اگر لڑے تو چیر کے رکھ دوں گا۔ اور بچے یوں ڈرتے کہ اک بار اس نے ایک لڑکے کے بازو پر لڑائی میں بلیڈ پھیر کر لہو لہان کر دیا تھا۔

جس کی پاداش میں فرقان کو سکول سے ایکسپل کیا گیا، مگر وہ تگڑی فوجی فیملی سے تھا۔ ایک ماہ بعد ہی دوبارہ کلاس میں بیٹھ گیا۔ کتے کے قاف والے فرقان کو میں نے لنچ بریک میں الگ کیا۔ اسے یقین دلایا کہ فرقان تم نے دیکھا شبنم مجھ سے بات کر رہی تھی۔ اس نے مجھے کہا ہے کہ وہ فرقان کو بہت پسند کرتی ہے۔ بس وہ شریف بن جائے یہی چاہتی ہوں۔

مجھے بدمعاش لڑکے نہیں اچھے لگتے۔ میں نے فرقان کو یقین دلایا کہ شبنم اسی کی ہے اور وہ اس پر مر مٹی ہے۔ فرقان کو یقین دلانا آسان ترین یوں تھا کہ شبنم اسے بھی پسند تھی۔ فرقان کو میں نے یہ بھی سمجھایا کہ خبردار جو شبنم سے بات بھی کی، اس نے مجھے بتایا ہے۔ اس لیے کہ تم کو صرف یہ سمجھاؤں کہ بدمعاشی چھوڑ دو۔ بس جب اسے لگا کہ تم شریف ہو گئے ہو وہ خود تم سے ساری بات کرے گی۔

فرقان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے میرے سامنے قسم کھائی کہ آئندہ سے وہ کسی سے لڑائی نہیں کیا کرے گا۔ نہ ہی شارپنر سے بلیڈ نکالا کرے گا، میں نے اس کے ذمے یہ کام بھی لگایا کہ بس ساری کلاس کو اپنی زبان میں آخری بار سمجھا دو کہ کوئی شبنم کو شبو نہ پکارے۔ اس کی انسلٹ ہوتی ہے۔ ایسے، صاحبو، کتے کے قاف والے فرقان نے ساری کلاس سیدھی کر دی اور یوں شبو سب کی زبان پر شبنم ہو گئی۔

دوسری جانب میں نے شبنم کو کہا کہ میں نے ساری کلاس کو اپنی زبان میں سختی سے سمجھا دیا تھا۔ شبنم میری گرویدہ ہو گئی۔ اور یوں آپسی تعلقات کی پینگیں بڑھنے لگیں۔ کچھ دنوں بعد ہی کتے کے قاف والے فرقان کو شک پڑ گیا۔ ظاہر ہے وہ مجھے اور شبنم کو اکثر باتیں کرتے اور ہنستے دیکھتا رہا تھا۔ اور یہ بھی کہ ہم دونوں لنچ بریک میں اپنا ٹفن شئیر کر کے کھاتے ہیں۔

نیز یہ بھی کہ شبنم ہنوز فرقان کا نام لکھ کر ٹیچر کو شکایت لگا دیتی تھی، مگر میری نہیں لگاتی تھی۔ ایک دوپہر کتے کے قاف والا فرقان کتا بن گیا اور اس نے شبنم سے اظہارِ دل لگی کر دیا۔ شبنم ہکی بکی رہ گئی۔ اس نے فرقان کو جوابی حملے میں کھری کھری سنا دیں اور بھاگم بھاگ ٹیچر کو ماجرا جا سنایا۔ بات پرنسپل تک پہنچی۔ فرقان کے والدین بلائے گئے۔ ان کی بھی انسلٹ ہوئی۔ فرقان کی گھر جا کر بھی اچھی خاصی ٹھکائی ہوئی۔

صاحبو، اگلے دن کچھ یوں ہوا کہ سکول سے چھٹی کے بعد میں اپنی ویگن کے انتظار میں تھا۔ کتے کے قاف والا فرقان بلیڈ ہوا میں لہراتے میری سمت بھاگتا آیا۔ اس کے منہ سے گالیاں جاری تھیں۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ اس کو باؤلا کتا بنا دیکھ کر میں نے دوڑ لگا دی۔ بہت بھاگا، کوئی دو کلومیٹر کی اس ریس میں بلآخر میں ہانپ کر رک گیا۔ فرقان نے مجھے آ لیا اور بلیڈ میری گال پر مار دیا۔

میرے بائیں رخسار سے خون کا فوارہ بہا۔ لوگ جمع ہو گئے۔ میں ڈر کے مارے بیہوش ہو کر گر پڑا، مجھے بائیں رخسار پر ٹانکے لگے۔ اس زخم کا نشان آج تک موجود ہے۔ اب قدرے ہلکا ہو چکا ہے، مگر واضح ہے۔ ایک زمانے تک شناختی کارڈز پر جب شناختی علامت لکھی جاتی تھی تو میری شناخی علامت میں لکھا ہوتا تھا" بائیں گال پر زخم کا نشان ہے۔ آپ میری تصاویر زوم کر کے دیکھیں تو آپ کو اب بھی ہلکی سی لکیر نظر آ جائے گی۔

کتے کے قاف والا فرقان آخر کار اس ہنگامے کے بعد سکول سے خارج کر دیا گیا اور پھر کبھی نظر نہ آیا۔ نجانے وہ کہاں ہو گا اور اب کیا کر رہا ہو گا۔ شبنم پر بات عیاں ہوئی تو شبنم نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا۔ میں نے اس کو منانے کی بہت کوشش کی مگر وہ باغی ہو چکی تھی۔ ویسے سچی بات ہے، مجھے اس سے کچی عمر میں کچی محبت ہوئی تو تھی۔

خیر وہ دور بیت گیا۔ نویں جماعت میں مجھے سکول چھوڑنا پڑا۔ وجہ یہ کہ حالات کے سبب والدین میری فیس کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتے تھے۔ میٹرک کے لیے مجھے سرکاری سکول جانا پڑا۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول سیالکوٹ شبنم قصہ پارینہ بن گئی۔ بہت سالوں بعد، سن دو ہزار سات میں میری پہلی شادی ہو چکی تھی۔ اس وقت میری عمر بائیس سال تھی۔

ایک روز میں سیالکوٹ کینٹ میں واقع مشہور کیفے Yummy 36 میں ایک دوست کے ہمراہ آئس کریم کھانے گیا۔ ایک لڑکی جو سامنے کی ٹیبل پر بیٹھی تھی۔ مجھے گھور گھور کے دیکھتی جا رہی تھی۔ کمبخت لڑکیوں کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ کافی دیر وہ دیکھتی رہی پھر اٹھی اور ہمارے ٹیبل پر آ کر بولی " آپ مہدی ہو؟ نیو کینٹ پبلک سکول سے پڑھے ہو ناں؟

میں نے حیران ہوتے کہا کہ جی ہاں۔ اس لڑکی نے مسکراتے ہوئے اب بڑی بے تکلفی سے کہا" تمہاری شکل بالکل ویسی ہی ہے۔ بس منہ بڑا ہو گیا فیچرز سیم بچپن جیسے رہے۔ میں یاد ہوں؟ ایک لمحے کو تو میرا ذہن گھوما کہ یہ کون ہے۔ نیو کینٹ سکول کی کلاس میں دس بارہ لڑکیاں کلاس فیلو تھیں۔ اچانک میرے ذہن میں خود بخود پہلا نام شبنم کا آیا۔ میں نے جھجھکتے جھجھکتے کہا " شبنم؟

اس نے سن کر قہقہہ لگایا "یس" پھر مڑی اور اپنی فیملی کی جانب دیکھتے ان کو بولی " یہ مہدی ہے۔ وہی میرا کلاس فیلو جو تھا۔ وہ جس کا بتایا تھا تم لوگوں کو" شبنم اپنی بہنوں کے ساتھ تھی۔ میں نے سب سے اٹھ کر سلام لی۔ وہ سب مجھے دیکھ کر ہنستیں رہیں اور میں بھی شرماتا رہا۔ اس دن شبنم کو یہ معلوم ہوا کہ میں شادی کر چکا ہوں، بہت خوش ہوئی، مبارک دی۔

اور ساتھ ہی کہا " یہ گال پر نشان وہی ہے ناں؟ میں نے قہقہہ لگایا " ہاں وہی ہے۔ یہ نشانی ہمیشہ رہے گا" اس نے سن کر شرارتی انداز میں کہا " اوئے ہوئے ہوئے۔ بیگم کو بتایا ہوا ہے اس نشانی کا اور میرا؟ میں نے اسے کہا ہاں اسے معلوم ہے۔ لو میرج ہے۔ یہ سن کر بولی " اچھا مہدی اب کوئی اور زخم نہ کھا لینا" اور قہقہہ لگا کر رخصت ہوئی۔ اس دن کے بعد سے شبنم پھر لاپتا ہے۔

نہ میں نے فون نمبر مانگا نہ اس نے مانگا۔ بس باتوں میں اچانک یاد بھی نہ رہا، شبنم تو خیر اب کیا یاد آنی۔ گال کا زخم بھی کب کا بھر چکا ہے۔ البتہ اس کی کہی ایک بات یاد آتی ہے " مہدی اب کوئی اور زخم نہ کھا لینا" میرا پہلا ازدواجی تعلق دس سال بعد سن 2016 میں تمام ہوا۔ نام بگاڑنے سے بات شروع کی تھی اور لکھنے لگا تو اس سے منسلک ماضی یاد آ گیا۔ یاد آیا تو لکھتا گیا۔ آپ انجوائے کریں۔ میں کچھ اور یاد کر لوں۔

Check Also

Israel Ki Tashkeel o Parwarish Mein Aalmi Idaron Ka Kirdar (1)

By Wusat Ullah Khan