Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Aap Beeti (2)

Aap Beeti (2)

آپ بیتی(2)

میں سی وی بھیجتا رہا اور مجھ سے کم تجربے والے کامیاب ہوتے رہے۔ جب میں نے دیکھ لیا کہ میرٹ نامی کوئی شے اس ملک میں نہیں ہے، تبدیلی کا نعرہ بس نعرہ ہے، تو میں نے سوچا کہ اگر نوکری سفارش کے بنا نہیں مل سکتی تو میں اپنے تعلقات کو اب استعمال کر لوں۔ مجھے جو شہرت ملی کبھی کسی آفیسر کسی جرنیل کسی سیاستدان سے کبھی اپنے کسی کام کے لئے فیور نہیں مانگی۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کی عزت لوگ کرتے ہیں، تو ان کو استعمال نہ کرو مگر نوکریوں پر ہونے والی بندر بانٹ دیکھ کر دل ٹوٹا کہ اس گریڈ کی نوکری پر کوئی سیاستدان یا بیوروکریٹ اپنے بھانجے بھتیجے نواز رہا ہے تو سوچا کہ اس گندے سسٹم میں کیا کروں گا؟ چار وفاقی وزرا، آٹھ صوبائی وزراء، تین فیڈرل سیکرٹری، دو آرمی ہائی رینک آفیسرز کو ملا۔

یہ سب میرے حلقہ احباب میں سے تھے۔ مجھے اچھی طرح جانتے تھے اور اب بھی حلقہ احباب میں ہیں۔ یہ بڑے لوگ بہت مجبور ہوتے ہیں۔ ان کی مجبوریاں ان سے بات کر کے پتا چل گئیں۔ ایک تگڑے فیڈرل سیکرٹری نے آف دی ریکارڈ کہہ دیا کہ آپ پہلے بتا دیتے تو جاب ہو جاتے، مگر یہ فلاں جاب پر مجھ سے پہلے والے سیکرٹری صاحب اپنے کسی عزیز کے لئے وعدہ لے گئے ہیں میں اب مجبور ہوں۔

یہ مجبوریوں کے قصے سننے کے بعد دو باتیں مجھ پر عیاں ہو گئیں، اول یہ کہ میرٹ نامی کوئی شے یہاں رتی برابر نہیں پائی جاتی سب فکس میچ ہوتے ہیں۔ دوئم یہ کہ عزت و شہرت پر لعنت بھیج کر کسی سے نہ ملنا ہے اب نہ نوکری کی بھیک مانگنی ہے کہ یہ کام کرتے مجھے خود کو ایسا لگتا تھا۔ جیسے میں گناہ گار انسان ہوں اور یہ سامنے بیٹھا یہاں کا خدا ہے۔

مجھ پر اسی سال یہ وقت بھی آیا کہ میں نے اپنی گاڑی کریم پر چلانی شروع کر دی۔ میں کسی کو کیا بتاتا کہ آجکل کریم چلا رہا ہوں؟ مجھے نتھیاگلی میں ٹورازم پر منعقد کانفرنس میں مدعو کیا گیا، جہاں صدر پاکستان سے لے کر سب بڑے موجود تھے۔ ہال کی نمائش میری ہی تصاویر سے کی گئی تھی اور ان بڑوں نے میرے کام کو خراج تحسین پیش کر کے تالیاں بھی بجائیں۔

دل کیا کہ اپنی تقریر میں سیاحت پر گفتگو کرنے کے ساتھ یہ ایک جملہ بھی کہتا چلوں کہ بارہ چودہ سال اس ملک کی خدمت کر کے آجکل گھر چلانے کو کریم چلا رہا ہوں، کیونکہ جس نوکری کا میں اہل ہوں وہ آپ لوگ اپنوں میں بانٹ رہے ہیں۔ مگر سوچا چپ رہو، رہنے دو، میں شام چھ سے صبح چھ تک بنا کسی کو بتائے لاہور کی سڑکوں پر کریم چلاتا رہا۔

میری بیگم اور تین قریبی دوستوں کے علاوہ اس بات سے کوئی آگاہ نہیں، کیونکہ کسی کو کیا بتاتا؟ ان گزری گزشتہ راتوں میں پچھلے چھ ماہ میں کئی بار آنکھیں بھیگیں، میں جو کہ اپنے والدین کی وفات پر نہ رویا، مگر اب خود ہی منظر دھندلانے لگے تھے۔ کوئی سواری آ کر بیٹھتی تو اس کا سوال ہوتا آپ فل ٹائم یہی کام کرتے ہیں؟ جی اس سے پہلے کیا کرتے تھے آپ؟

کچھ نہیں بس ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام پڑھے لکھے لگتے ہیں، آپ تو نوکری نہیں کرتے؟ نہیں۔ میں نے ایسے ہی عمر ضائع کی اسی لئے تو ٹیکسی چلا رہا ہوں۔ مجھے وکیل، ڈاکٹر، سائنسدان، پروفیسرز غرض ہر شعبے سے وابستہ مرد و حضرات ملے۔ میں زیادہ بات نہیں کرتا اس لئے چپ چاپ گاڑی چلاتا مگر کچھ لوگ جو بات کرنا چاہتے تھے۔ ان کے سوالوں کے جواب دینے سے گریز کرتا رہتا کہ ان کو اپنے بارے کیا بتاوں۔

لوگ میری ڈریسنگ جو کہ ہمیشہ سے ہی اچھی رہی ہے اور دن میں رے بین کی عینک لگی دیکھ اور سامنے ڈیش بورڈ پر لگا پونے دو لاکھ کا موبائل P30 Pro جو Huawei نے مجھے بطور برآنڈ ایمبسیڈر دیا تھا یہ سب دیکھ کر تجسس کا شکار ہوتے۔ ان کو کیا بتاتا کہ یہ کوٹ، موبائل اور عینک نہیں بکتی، یہ اعزازی عہدے میرے فن کو سلامی تھے بس، یہ لیبل ٹیلنٹ کی قبر پر چڑھائی جانے والی چادریں ہوتی ہیں۔

ایک بار پھر میں نے منسٹری آف کامرس میں Director IT کی گریڈ 19 کی جاب کے لئے اپلائی کیا۔ پی ٹی ایس کے ذریعہ امتحان دیا اور پاس کر کے انٹرویو میں پیش ہوا۔ پانچ لوگوں پر مشتمل سلیکشن بورڈ تھا اور میں ان کے سامنے بالکل چپ تھا، کیونکہ مجھے پتا تھا یہ سب خانہ پری کر رہے ہیں۔ دل اٹھ چکا تھا، مگر یہ سارا عمل رائیگاں سے گزرنے کا اس لئے سوچا کہ ٹیکسی چلا چلا کر۔

ڈرائیو بننے والے مائنڈ سیٹ اور فریم ورک سے ایک دن کو نکل کر یہی محسوس کر لوں کہ میں ایک قابل انسان بھی ہوں۔ بورڈ والے آئی ٹی کے متعلقہ سوالات کر چکے تو مجھ سے پوچھنے لگے، اس کے علاوہ آپ کی کوئی hobby یا کوئی ایسا کام جو آپ کو لگتا ہو کہ آپ منفرد کرتے ہیں؟ میں پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا۔ میں نے اپنے بارے آج تک کی اپنی اچیومنٹس بارے تفصیل سے بتانا شروع کر دیا۔

میں پندرہ منٹ لگاتار بولتا رہا وہ سنتے رہے۔ جب سب کچھ بول چکا تو مجھے کہا گیا آپ تشریف لے جا سکتے ہیں۔ سن 2019 اپریل سے میں اقوام متحدہ میں بطور کنسلٹنٹ کام کر رہا ہوں اور یہ بھی ایک قصہ ہے کہ 2019 کی عید سے قبل مجھے کال آئی اور یو این سے آفر ہوئی۔ عید کے فوری بعد مجھے منسٹری آف کامرس سے جاب کا لیٹر موصول ہو گیا۔

یہ بھی تین سالہ کانٹریکٹ جاب تھی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ بیوروکریسی میں کنٹریکٹ پر بابو بنے بیٹھے رہنے سے اچھا کہ اقوام متحدہ کی آفر قبول کر لوں۔ اس میں سفر ہے، فوٹوگرافی ہے، ریسرچ ورک اور لکھنے کا کام ہے۔ سن 2020 کے دسمبر میں مجھے ورلڈ بینک کی کنسلٹنسی بھی مل گئی۔ آپ نے اتنا لمبا مضمون پڑھا شکریہ آپ سب کا۔ زندگی اسی کا نام ہے، وقت آتا ہے گزر جاتا ہے۔

انبیاء سے اس زمین نے وفا نہیں کی، خدا ان پر آزمائشیں ڈالتا رہا یہ آزمائشیں بھی ایک نعمت ہوتی ہیں۔ حوصلہ شرط ہے۔ میں بہت برے حالات میں بھی مسکراتا اور آپ سب کو ہنساتا رہا ہوں۔ انسان اگر حالات سے ٹوٹ جائے تو وہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ مرنے سے پہلے مر جاتا ہے۔ لہذا کوشش جاری رکھو آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ آیئے چلتے ہیں بقیہ خبروں کی طرف۔

پیش خدمت ہے افتخار عارف صاحب کا کلام قصۂ اہلِ جنوں کوئی نہیں لِکھے گا جیسے ہم لِکھتے ہیں، یُوں کوئی نہیں لکھے گا وحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی، حالتِ سوزِ درُوں، کوئی نہیں لکھے گا کیسے ڈھہ جاتا ہے دل، بُجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟ سر نوِشتِ رگِ خُوں، کوئی نہیں لکھے گا کوئی لکھے گا نہیں، کیوں بڑھی، کیسے بڑھی بات؟ کیوں ہُوا درد فزُوں؟

کوئی نہیں لکھے گا شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے میں ہی لکھوں تو لکھوں، کوئی نہیں لکھے گا بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسم میں کیا کہُوں، کس سے کہُوں، کوئی نہیں لکھے گا۔

Check Also

Ban Bas, Riyasat Ho Maa Jaisi

By Amir Khakwani