Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Aap Beeti (1)

Aap Beeti (1)

آپ بیتی(1)

ہمارے ایک سینئیر فوٹوگرافر ہیں، بزرگ ہیں اور فنانشلی ویل سیٹل ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک گلہ بھیجا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شاہ جی آپ پاپولر فوٹوگرافر ہیں، اس لیے آپ کا کام بک بھی جاتا ہے اور کمنٹس و لائکس بھی آ جاتے ہیں۔ ہم پاپولر نہیں ہو سکے۔ میں ان کے گلے سے اتفاق کرتا ہوں اور ان کو بصد احترام عرض کر چکا ہوں کہ آپ کی بات مان لی۔ آپ کو اپنا کام مارکیٹ کرنے سے کس نے روکا ہوا تھا؟

وہی ٹولز آپ کے ہاتھ ہیں جو میرے پاس ہیں۔ اگر آپ گمنام رہ گئے تو کم از کم میرا قصور تو نہیں اور گلہ مجھ سے ایسا بنتا نہیں کیونکہ میں تو آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں تھا۔ نیز مجھے اپنا کام بھیجئیے میں اپنی وال پر پوسٹ کرتا ہوں۔ آپ کو ٹیگ کرتا ہوں تاکہ لوگ آپ اور آپ کے کام سے شناسا ہوں، پڑھ چکے ہیں مگر جواب ابھی تک نہیں آیا۔ جیسے ہی ان کا کام موصول ہوا میں آپ سب سے شئیر کروں گا۔ شاید تلاش رہے ہوں کہ کونسا کام بھیجوں۔

مجھے بس اتنا عرض کرنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہرت خداداد ہوتی ہے۔ میں جانتا ہوں ہر شعبہ ہائے زندگی میں بہت سے قابل لوگ پیچھے رہ گئے اور جو خود کو مارکیٹ کر سکتے تھے وہ آگے نکل گئے۔ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ میرا فن تصویر ہو یا تحریر ایک عامیانہ فن ہے اور مجھ سے بہت قابل لوگ ابھی زندہ ہیں اور کام کر رہے ہیں۔

لیکن یہ بھی مانتا ہوں کہ قدرت کا اپنا نظام ہے اور اس کے ہاں محنت کا صلہ دیر بدیر محنت کرنے والے کو ضرور ملتا ہے۔ آپ میں سے کوئی میری وہ کہانی نہیں جانتا کہ کیسے اس ڈیڑھ دہائی میں کن کن حالات میں اور کیسے کیسے کمپرومائز کر کے میں نے دوردراز کے سفر کئے ہیں اور فوٹوگرافی جیسا مہنگا ترین فن بروئے کار لانے کو کتنے قرض اٹھانا پڑے۔ کتنا سرمایہ اس فن کی نذر بہایا ہے۔

میں سرمایہ دار نہیں تھا۔ مڈل کلاس فیملی تھی۔ والدہ سرکاری سکول ٹیچر تھیں۔ ان کی تنخواہ سے گھر چلتا تھا۔ اور تنخواہ کتنی ہوتی ہے؟ ایک وقت کا کھانا کھا کر پلا ہوں دو وقت کا تو نصیب بھی کم کم ہوتا تھا۔ اور جب برسر روزگار ہوا تو پہلی نوکری کی تنخواہ ڈھائی ہزار روپے تھے۔ زندگی مد و جزر کا نام ہے مگر کئی بار ہچکولے کھا کھا کر بڑے باہمت انسان بھی دل ہار جاتے ہیں۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ میرا گھرانہ سیالکوٹ کے خوشحال گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ والد کامیاب بزنس مین تھے۔ سن 1982 میں میری پیدائش ہوئی تو والد نے کرولا 1982 خریدی کہتے ہیں اس وقت سیالکوٹ میں گنتی کی گاڑیاں چلتی تھیں اور کرولا 82 سارے شہر میں صرف دو تھیں۔ ایک والد صاحب کی اور ایک ہاکی بنانے والی مشہور فرم علی ٹریڈنگ کے مالک کی۔

میری عمر پندرہ سال ہوئی تو والد صاحب نے نہ جانے کیا ایسا کر دیا کہ سارا بزنس ٹھپ ہو کر ختم ہو گیا۔ کسی پر اعتبار کر کے انوسٹ کیا اور وہاں سے ایسا دھوکہ ملا کہ اس کے بعد نہ والد سنبھلے نہ بزنس۔ ایف ایس سی تک آتے آتے ایک دن انکشاف ہوا کہ والد کو کینسر ہے۔ اماں کو سرکاری سکول میں نوکری کرنا پڑ گئی اور مجھے ایف ایس سی کی پڑھائی کے ساتھ ایک چمڑا بنانے والی کمپنی میں پارٹ ٹائم جاب۔

ٹینری کا نام تھا خلجی سنز، کالج سے فری ہو کر شام 4 بجے چمڑے کی فیکٹری چلا جاتا اور رات دس بجے تک اکاونٹس دیکھتا۔ یہ کچا چمڑا پراسس کرنے کی ٹینری تھی۔ شام کو تیار شدہ کچا چمڑا ٹینری سے باہر جاتا جس کی گنتی اور لوڈنگ کی ذمہ داری میری ہوا کرتی۔ لوڈ شدہ ٹرک کا گیٹ پاس بنانا بھی میری ڈیوٹی تھی۔ رات آٹھ سے دس تک باہر سے کھالیں ٹینری میں آتیں ان کی گنتی کے بعد وصولی لینا بھی۔

میرے ذمے ہوتا اور آخر میں اکاونٹس کی لیجر پر سارا حساب درج کر کے چھٹی کر جاتا۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ چمڑے کی ٹینری میں کیمیکلز اور کچے چمڑے کی کتنی بدبو ہوتی ہے۔ شروع کے دنوں میں متلی آتی رہی پھر انسان عادی ہوتا جاتا ہے۔ سخت بدبو میں کام کرنا مجبوری تھی کہ والدہ کی تنخواہ تو ادویات اور ہسپتالوں کے اخراجات میں صرف ہو جایا کرتی۔

گھر آتے رات کے گیارہ بج جاتے۔ ایک گھنٹہ کالج کا کام دیکھتا پھر سو جاتا۔ صبح تین بجے اٹھ کر مجھے ڈسٹری بیوٹر سے اخبار لینا ہوتی جسے صبح کے نو بجے تک مجھے اپنی سائیکل پر گھروں اور دفاتر میں تقسیم کرنا ہوتا۔ پھر کالج کا وقت ہو جاتا۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ دن میری زندگی کے سخت ترین دن ہیں یہ گزر جائیں گے۔ ایف ایس سی کے بعد ڈگری کروں گا تو کہیں بہتر نوکری مل جائے گی۔

دن گزرتے رہے۔ کینسر سے کسے فرار نصیب ہے۔ والد کے انتقال کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی داخلہ لیا اور دو سالہ بی ایس سی مکمل کی۔ اس وقت گریجویشن دو سالہ ہوا کرتی تھی۔ 2004 میں گریجویشن مکمل ہوئی تو مجھے نوکری مل گئی۔ یہ انٹرنیٹ سروس پرواڈر کمپنی میں کسٹمر سپورٹ کی جاب تھی۔ ساری رات لوگوں کی شکایات فون پر سننا ہوتیں اور ان کو حل بتانا ہوتا۔ صبح کو پڑھنا ہوتا۔

2004 سے ہی فوٹوگرافی کے سفر کا آغاز کیا۔ یہ شوقیہ سلسلہ چلتا رہا۔ میں نے چار سالہ ڈگری پروگرام BS Hons Telecommunication & Computer Networks میں داخلہ لیا۔ 2008 میں ڈگری مکمل کی اس دوران جاب پر کچھ ترقی ملتی رہی تو میں ساتھ ساتھ کمپیوٹر نیٹورکس کی فیلڈ میں انٹرنیشنل سرٹیفکیٹس کی تیاری کر کے انہیں پاس کرتا رہا۔ فوٹوگرافی سے پذیرائی ملتی رہی۔

لوگوں نے جاننا شروع کیا اور میرے کام کو سراہا جانا لگا۔ 2008 سے 2009 کے بیچ میں نے مائیکروسافٹ، لینکس اور Cisco کو پاس کیا۔ MCSE، CCNA، CCNP، JUNIPER، LINUX کی سرٹیفکیشن پاس کیں۔ جاب پر ترقی کر کے IP Core Network ٹیم کا حصہ بن گیا اور نیٹورک انجینئر ہوا۔ میری تنخواہ چھ ہندسوں پر چلی گئی۔ فوٹوگرافی میں شہرت ملی تو لکھنا بھی شروع کر دیا اور میری پہچان بطور کالم کار بھی بن گئی۔

یہاں میں ٹورازم اور فوٹوگرافی میں ملنے والی اچیومنٹس کا ذکر نہیں کروں گا، عزت و شہرت بہت ملی پروردگار کا کرم رہا اور اس ملک کے لئے جو کر سکتا تھا کیا۔ میری پروفائل آپ جانتے ہوں گے۔ 2015 کے آخر میں مجھے کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنا ازواجی تعلق ختم کرنا پڑ گیا۔ اس کے ساتھ بچوں کی ذمہ داری مجھ پر آ گئی کہ ان کی والدہ کو انہیں رکھنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔

بچے چونکہ چھوٹے تھے وہ اپنی ماں کے بنا رہ نہیں سکتے تھے مگر ان کو کون سمجھاتا کہ تمہاری ماں نہیں چاہتی تم کو اس لئے مجھے جاب چھوڑنا پڑی اور بچوں کی نگہداشت کرنے میں چھ ماہ گھر میں لگا رہا۔ ان بیروزگار چھ ماہ میں جو سیونگ تھی وہ لگتی رہی اور ایک بار پھر مجھے جاب کرنا پڑی، میں یونیورسٹی میں آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھانے لگا، سیالکوٹ چھوڑا لاہور منتقل ہو گیا۔ تنخواہ سے گزر بسر ہوتی رہی۔

دو سال پڑھانے کے بعد یونیورسٹی چھوڑی اور عشق میں مصروف ہو گیا یعنی فوٹوگرافی اور ریسرچ سے متعلقہ پراجیکٹس۔ ان پراجیکٹس سے گزر بسر ہوتا رہا، مگر اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان میں اتنی رقم ہوتی ہے کہ سہولت سے گزارا ہو جائے تو آپ بالکل غلط سمجھ رہے ہیں۔ یہ کام میں اس لئے کرتا رہا کہ میرے متعلقہ تھے اور میرا دل فوٹوگرافی و سیاحت میں لگا رہتا تھا۔ سو دل کی سنتا رہا۔

یہاں کا معاشرہ عجب ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر آپ کی رہائش، سفر، کھانے اور دیگر اخراجات پر لاکھوں لگا سکتا ہے مگر آپ کو اپنے گھر کے اخراجات کے لئے یا کام کا معاوضہ لاکھوں میں دیتے ایک ایک پائی پر بحث کرتا ہے۔ ایسا وقت رہا ہے مجھ پر کہ میں بزنس کلاس میں بیرون و اندرون ملک سفر کرتا رہا، مگر میری جیب میں دو ہزار سے زیادہ نہیں تھے نہ بینک میں کچھ موجود تھا۔

میرے پاس ڈیڑھ لاکھ کا موبائل تھا جو کمپنی کا مجھے بطور برآنڈ ایمبسیڈر گفٹ تھا مگر مجھے کچھ پے نہیں ہو رہا تھا۔ اس وقت میرے پاس مہنگا ترین فون P30 Pro تھا۔ یہ معاشرہ آپ سے نہیں پوچھتا کہ آپ کو کیا چاہیئے یہ اپنے معین شدہ پروٹوکول کو فالو کرتے ہیں۔ میں فائیو سٹارز میں ٹھہرتا رہا، بزنس کلاس میں سفر ہوتے رہے اور ذہن میں کچن چلانے کی ٹینشن لئے گھومتا رہا۔

میں فنکار تھا، مگر فائن آرٹ فنکار نہیں تھا، اس لئے اپنا نام مجھے کیش کرانا نہ آ سکا۔ شرم، مروت، جھجک میرے آڑے آتی رہی کہ کسی سے پیسوں پر ڈیل کرنا اور بحث کرنا میرے بس کا نہیں رہا، میں بڑے اداروں سے ایک ایک پائی پر بحث نہیں کر سکتا۔ مجھے بات کرتے شرم آتی رہی کہ ان سے کیا کہوں ان کو خود معلوم ہونا چاہیئے میں لکھ کر ان کو اپنے سروس چارجز بتا چکا ہوں۔

مگر ہوتا یہ رہا کہ سامنے والا بزنس مین تھا یا ادارے کا فنانس یا مارکیٹنگ مینجر جس نے اپنے ادارے کو ثابت کرنا ہوتا تھا کہ دیکھا اتنے پیسے بچا کر کام کروا لیا، میں نے پھر سرکاری نوکری کی تلاش شروع کی۔ 18 سالہ ایجوکیشن اور 12 سالہ تجربے کے ساتھ میں اوور کوالیفائڈ تھا، گریڈ 18 اور 19 کی نوکری کے لئے کہ وہ 16 سالہ ایجوکیشن اور 6 سالہ تجربہ مانگتے تھے۔ عمر کی حد ٹیکنیکل جاب میں اس گریڈ میں 40 سے 45 سال تک ہوتی ہے لہذا عمر میں بھی کم تھا۔

Check Also

Kuch Nayab Heeray

By Haris Masood