Aaj Kal Ki Paod Hamari Generation Se Kuch Aage Ki Hai
آجکل کی پود ہماری جنریشن سے کچھ آگے کی ہے
آجکل کی پود ہماری جنریشن سے کچھ آگے کی رازدارانہ سوچ رکھتی ہے۔ اس کی وجہ شاید میڈیا ایکسپوژر ہے یا انفوٹینمنٹ کے ذرائع ہمارے دور سے ہزار گنا زیادہ ہیں۔ میرا بیٹا کئی ماہ سے گاہے گاہے مجھے اکیلے میں آ کے کہتا رہا "بابا، میری کلاس ٹیچر آپ کی بہت فین ہیں وہ کئی بار مجھے کہہ چکی ہیں کہ آپ کے بابا سکول نہیں آتے اگر کبھی آئے تو مجھے لازمی بتانا اور ان کو بھی کہنا کہ مجھے ملنا ہے"۔ میں یہ بات سن کر ہنس کے ٹال دیتا کہ اچھا اسی وجہ سے وہ شاید تم سے رعایت برتتے ہوئے تم کو اچھے نمبرز دے دیتی ہیں اور وہ جواب سُن کے افینڈ ہو جاتا کہ بالکل نہیں میں خود اچھے سے پڑھتا ہوں۔ کچھ دن پہلے اس نے پھر مجھے اکیلا پا کر چپکے سے آ کر یہ بات کہی تو میں نے پوچھا " یہ تم مجھے اکیلے آ کر کیوں بتاتے ہو ماما کے سامنے کبھی نہیں بتایا؟"۔ بولا " او بابا، آپ کہتے ہیں تو ماما کو بھی کہہ دیتا ہوں پھر مجھے کچھ نہ کہنا! "۔
مجھے یاد ہے میرا بچپن۔ ایک دن میں بھاگا بھاگا باہر سے کھیل کر گھر میں داخل ہوا اور ابو کو سامنے پا کر پیغام دیا " ابو وہ آنٹی فرزانہ کہہ رہی ہیں کہ اپنے ابو کو کہنا ہماری طرف چکر لگائیں ذرا"۔ بس اتنا ہی کہنا تھا کہ اماں نے ابو کو دیکھا اور بولیں" کیا کام ہے فرزانہ کو؟ یہ کیا آئے دن بلاتی ہے۔ میں جا کے خود پوچھتی ہوں اس سے۔ اور آپ محلے کا ٹھیکہ لینا چھوڑ دیں۔ ان کو اپنے مسائل خود حل کرنے دیں"۔ آنٹی فرزانہ کے شوہر آئے دن گھر میں جھگڑ کر فرزانہ کو بے دخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے خود ہی گھر سے نکل جاتے تھے۔ نتیجتہً صلح کروانے کو پھر بیٹھک ہوتی۔ ابا اس بیٹھک کو بھگتا کر پہلے تو خوش ہوتے کہ چلو صلح کروا دی مگر بعد میں تنگ ہوتے کہ کیا آئے روز کا کھیل ہے۔ اب سوچوں تو آنٹی فرزانہ کا چہرہ جب سامنے آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ ابا کی صلح کروانی کی مجبوری شاید آنٹی فرزانہ کی ٹِپ ٹاپ حالت رہتی ہو۔۔ وہ ہر وقت یوں تیار شیار رہتیں جیسے کسی فنکشن میں جانا ہو۔ اماں نے ایک دن مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا " اب اگر تم نے فرزانہ کا پیغام دیا یا اس کے پاس بھی پھٹکے تو تمہاری خیر نہیں"۔
دوستو، میں صبح دس بجے بیگم کو ہمراہ لیے سکول چلا گیا۔ سکول میں نیا سیشن سٹارٹ ہے۔ کینٹین سے بچوں کے نئے یونیفارمز لینا تھے اور کچھ سٹیشنری کا سامان۔ سکول پہنچا تو بیٹا بھاگم بھاگ کلاس میں گیا اور اپنی ٹیچر کو مطلع کر دیا۔ اس کی کلاس ٹیچر جیسے ہی ہمارے سامنے آئی مجھے نجانے کیوں آنٹی فرزانہ یاد آ گئی۔ ویسی ہی ٹِپ ٹاپ، زمانے کے فیشن سے مکمل ہم آہنگ اور کیوٹ صورت۔ وہ اتنا خوش ہوئی کہ میرا بھی ابا کی مانند دل چاہنے لگا کہ ان سے پوچھوں کہ گھر میں سب خیریت ہے ناں؟ صلح صفائی کی نوبت تو نہیں کوئی؟ مگر ظاہر ہے ایسا نہیں کہہ سکتا تھا۔ بیگم بھی ہمراہ تھیں۔ میں نے ان کی خوشی دیکھتے ہوئے چند رسمی جملوں کا تبادلہ کیا۔ ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر پوچھا
"آپ کے ہسبنڈ بھی سکول ٹیچر ہیں یا وہ کوئی اور جاب کرتے ہیں؟"۔
انہوں نے سُن کر قہقہہ لگاتے جواب دیا " ہسبنڈ ابھی تک نہیں بنا کوئی۔ "۔ یہ Jaw dropping جواب سن کر میں نے سوچا کہ بیگم کو ساتھ لانا ضروری نہیں تھا۔ کینٹین سے یونیفارم اور سٹیشنری وغیرہ کی شاپنگ تو کاکے کی سکول ٹیچر بھی کروا سکتیں تھیں۔
سکول سے کام ختم کرکے نکلا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی بیگم بولی " لگ نہیں رہا تھا کہ آپ پہلی بار ملے۔ یہ کچھ زیادہ ہی فین لگی مجھے۔ اور بات سنیں۔ یہ کیا آپ ہر ملنے والی لڑکی سے اس کے ہسبنڈ کی بھی خیریت معلوم کرتے ہیں؟"۔ گھر تلک پہنچتے گاہے گاہے بیگم کا موڈ بدکتا رہا۔ وہ نجانے کیوں چڑچڑی سی ہوگئی تھی۔ نہ خوش تھی نہ ناراض تھی۔ ایسے جیسے اس کا آپریٹنگ سسٹم ہینگ ہو چکا ہو۔ جیسے ہی گھر پہنچے، بیگم نے بیٹے کو کہا" حسن، سکول ٹیچر کا جو بھی پیغام ہو وہ مجھے دیا کرو۔ آئی سمجھ؟ تمہاری ایجوکیشن کو میں دیکھتی ہوں بابا نہیں۔ پڑھاتی میں ہوں بابا نہیں۔ سکول کے کام میں ہینڈل کرتی ہوں بابا نہیں۔ سکول کے لیے میں اُٹھاتی ہوں بابا نہیں۔ ناشتہ میں بناتی ہوں، ٹفن میں دیتی ہوں بابا نہیں"۔ وہ ہر بات کے جواب میں"جی جی" کرتا رہا اور اپنے کمرے میں داخل ہونے سے قبل اس نے مجھے ہمدردانہ نظروں سے دیکھا۔۔
مجھے سارا دن اماں مرحومہ یاد آتیں رہیں۔ دل شدت سے چاہ رہا ہے کہ سیالکوٹ کا چکر لگا کر ابا مرحوم کی قبر پر فاتحہ پڑھ آؤں۔ اماں ابا گو کہ ساتھ ساتھ ہی مدفون ہیں مگر ابا سے ہمدردی وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔