Aaj Ka Daur Electronic Daur Hai
آج کا دور الیکٹرانک دور ہے

منشا یاد نے پنجابی ناول "ٹاواں ٹاواں تارا" لکھا، اس ناول کو اتنی شہرت ملی کہ کئی زبانوں میں اس کے ترجمے کیئے گئے، پھر منشا یاد نے خود ہی اردو میں اس ناول کو مرتب کیا اور اس کا نام "راہیں" رکھا۔ پی ٹی وی نے اس پر ڈرامہ سیریل "راہیں" ٹیلی کاسٹ کی لیکن ڈرامے میں بہت اختصار سے کام لیا گیا ہے اور کہانی میں کافی رد و بدل کی گئی ہے ورنہ ناول کی کہانی بہت آگے چلتی ہے۔
راہیں منشا یاد کا شہکار ہے، ایک گاؤں کی کہانی جو آزادی سے پہلے بھی ذات پات میں بٹا ہوا تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ چوہدریوں، ملکوں اور سیدوں کو سُپر لیٹو ڈگری اسی معاشرے نے دی تو پھر کمہاروں، گجروں اور باقی ذاتوں کے ساتھ کمی کمین والا سلوک تو ہونا تھا۔ ہمارے معاشرے کے استحصالی نظام کی کہانی اور وڈیروں زمینداروں کے جرائم کی داستان یہ ناول بھی پڑھنے والی کتاب ہے۔۔
"شکستہ ستون پر دھوپ"، انتظار حسین نے عطیہ حسین کے انگریزی ناول کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ انگریزی میں یہ ناول "سَن لائیٹ آن اے بروکن کالم" کے نام سے شائع ہوا۔ عطیہ حسین نے لکھنوؤ کے نواب گھرانے اور انگریزوں کے تعلقہ داروں میں آنکھ کھولی اور اسی ایلیٹ ماحول میں پرورش پائی۔ آزادی کے بعد ہندوستان چھوڑ کر برطانیہ پناہ لی اور بی بی سی ریڈیو سے ایک پروگرام کی میزبانی کرتی رہیں۔ یہ ناول آؤٹ کلاس تحریر ہے، کچھ انتظار حسین نے ترجمہ کرتے وقت کمال کر دیا ہے۔۔ ایک لڑکی کی داستان جو اپنی روایات سے باغی تھی اور جسے نچلے طبقے کے ایک لڑکے سے محبت ہوگئی تھی۔ انگریزوں کے زیرِ اثر ہندوستان کے شہر لکھنوؤ کی اُن دنوں کی کہانی جب کانگریس اور مسلم لیگ کی تفریق گھر گھر پھیل رہی تھی۔ ایک کتاب جو پڑھی جانے کے قابل ہے یہ آپ کو ایک اور ہی اداسی میں چھوڑ جائے گی۔ عطیہ حسین نے ایسا ناول لکھ کر میرے پسندیدہ لکھاریوں میں جگہ بنا لی۔
بپسی سدھوا کا انگریزی ناول "کریکنگ انڈیا" ایک کلاسک تحریر ہے۔ پاکستان ہندوستان کی تقسیم کے پس منظر اور فسادات کی آگ کے شعلوں میں لکھا گیا یہ ناول ہمیشہ پڑھنے کے قابل بنا رہے گا۔۔ تحریر کا انداز، منظر کشی، کردار ایسے کمال پیش کئیے گئے ہیں کہ آپ اس کو پورا پڑھے بغیر نہیں چھوڑ سکتے۔ بلاشبہ بپسی سدھوا نے ایک شہکار تخلیق کیا ہے۔
احمد بشیر صاحب بشری انصاری کے والد تھے۔ مایہ ناز صحافی رہے۔ ان کا ناول "دل بھٹکے گا" اچھی تخلیق ہے جو خودنوشت بھی ہے۔
سینکڑوں کتابوں کے ڈھیر سے جن کتابوں نے مجھے متاثر کیا ان میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سرفہرست تینوں کتابوں کی لکھاری عورتیں ہیں۔ شاید عورت میں فطرت سے جذب کرنے کی صلاحیت اور حساسیت مرد کی نسبت زیادہ ہوتی ہے اور جذباتیت کے ساتھ ساتھ اس کا زمینی حقائق سے توازن بھی زبردست ہوتا ہے۔
ذکر ہو رہا تھا کتابوں کا، بہت ساری پسندیدہ کتابوں میں سے اپنی پسند کی چند کتابوں کا ذکر کر رہا۔
آنگن، خدیجہ مستور
آگ کا دریا، قرۃالعین حیدر
پنجر: دی سکیلٹن، امرتا پریتم
بستی، انتظار حسین
خس و خاشاک زمانے، مستنصر حسین تارڑ
اداس نسلیں، عبداللہ حسین
بہاؤ، مستنصر حسین تارڑ
کئی چاند تھے سرِ آسماں، شمس الرحمن فاروقی
خدا کی بستی، شوکت صدیقی
غلام باغ، مرزا اطہر بیگ
علی پور کا ایلی، ممتاز مفتی
دشتِ سوس، جمیلہ ہاشمی
خواب سراب، انیس اشفاق
ریل کی سیٹی، حسن معراج
آدمی، عرفان جاوید
آواز دوست، مختار مسعود
جرنیلی سڑک، علی رضا عابدی
تہذیب کی کہانی، ول ڈیورانٹ (مترجم یاسر جواد)
مٹی کا دیا، مرزا ادیب
مرڈر آف ہسٹری، کے کے عزیز
ڈپلومیٹک فٹ پرنٹس، اعزاز چوہدری
ٹیکنگ ہائی روڈ، رام بخشانی
وداع جنگ، ہیمنگ وے (مترجم اشفاق احمد)
میرا داغستان، رسول حمزہ توف
کائٹ رنر، خالد حسینی
فرنٹئیر سٹیشنز، شکیل درانی
داس کیپیٹل، کارل مارکس
تھری کپس آف ٹی، ڈیوڈ اولیور اینڈ گریگ مارٹنسن
دی کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز، محمد حنیف
ہنڈرڈ ائیرز آف سالیچیوڈ، گبریل گارشیا
مدر، میکسم گورکی
دی لاسٹ ورڈ، اویا بیدر
آنر، ایلف شفک
گون ود دی ونڈ، مارگریٹ مچل
پرائیڈ اینڈ پریجوڈیس، جین آسٹن
ٹرین ٹو پاکستان، خشونت سنگھ
انا کارنینا، لیو ٹالسٹائی
وائٹ ٹائیگر، اراوند اڈیگا
اینڈ دی ڈان فلوز، میخائل شولوخوف
ڈاکٹر ژواگو، بورس پیسترنک
گنگا سے وولگا تک، راہل سانکرتیاتن
The remains of the day by Kazuo Ishiguro
Verdict on India by Beverley Nichols
History of Arab by Philip K.Hitti
Norwegian wood by Haruki Murakami
Magnificent Delusions by Hussain Haqqani
Imaging Lahore by Haroon Khalid
فی الحال میرے ذہن میں جو آ رہی ہیں وہ لکھ دیں یہ مختصر ترین لسٹ ہے۔ ذاتی طور پر ادب، تاریخ، فلسفہ اور آرٹ سے متعلقہ کتب پڑھنا پسند ہیں۔ ہر کتاب پر تعارفی مضامین کا سلسلہ شروع کیا جا سکتا ہے۔

