Aage Barh Jayen
آگے بڑھ جائیں

آج تک میں کسی سے فزیکلی یا منہ زبانی نہیں لڑا۔ بس ایک تو مزاج ایسا ہے کہ لوگوں کے رویوں کو اگنور کرتا ہوں دوسرا یہ کہ وہ شخص جس کے اوپر فیملی کا دارومدار ہو بال بچے ہوں اور واحد کمانے والا ہو وہ کسی لڑائی جھگڑے میں پڑنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ اگنور کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کوئی گالی دے جائے تو بھی بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے۔ ایک منٹ کا غصہ کئی ماہ کی ذلالت یا مستقل جانی دشمنی میں بدل سکتا ہے۔ باشعور لوگ ہر حال میں ایسی سچوئیشنز کو ایوائڈ کرتے ہیں۔ خواہ کتنے ہی آپ کے تعلقات ہوں یا آپ بااثر ہوں مگر آپ کو تعلقات کے سر پر لڑائی مول لینا زیب نہیں دیتا۔ یوں نہیں کہ غصہ نہیں آتا مگر پینا پڑتا ہے۔ ہر لڑائی لڑنے والی نہیں ہوتی۔ بے مقصد لڑائیاں ورتھ نہیں رکھتیں۔ یہ آپ کے وقت، انرجی اور تعلقات کا ضیاع ہوتی ہیں۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر سیاسی مشتعل لوگ اور مذہبی جنونی بھی ٹکرتے ہیں۔ وہ آپ کو آپ کی فیملی کو ننگی گالیاں بھی دے دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں اگلا ان کی زبان بولے ورنہ پھر اس کی پین دی۔۔ آپ جواباً ان کو ان کی زبان میں گالی نہیں دے سکتے حالانکہ بہت آسان ہوتا ہے۔ پبلک فورم پر آپ کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ آپ بدزبانی نہیں برت سکتے۔ ایک ہی حل رہ جاتا ہے ایسوں کو بلاک کرنا اور بس۔ اگر کبھی غصہ بڑھ جائے اور آپ اگلے کو اس کی زبان میں جواب دے دیں تو اگلا اس کا سکرین شاٹ گھماتا پھرتا ہے "اس دانشور کی زبان دیکھو"۔ اخلاقیات کے سارے معیار وہ آپ پر فکس کرنے لگتے ہیں۔ بہرحال، سیاسی، سماجی ایشوز پر ہر لکھنے والے کے پاس ایک ہی آپشن ہوتی ہے وہ ہے بلاک۔ ہر قاری کے پاس بھی ایک ہی موقعہ ہوتا ہے۔ وہ ایک بار تو بدتمیزی کر سکتا ہے اگلا موقعہ کوئی نہیں دیتا۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو کچھ عرصے بعد اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے۔ کئیوں نے مجھ سے واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کرکے یا کسی دوسری پروفائل سے میسج کرکے معذرت کی ہے اور انبلاک کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ پھر میں کر دیتا ہوں کہ اب ان کو احساس ہوگیا ہے تو ٹھیک ہے۔ کئی لوگوں کو معاملات بہت بعد میں سمجھ آتے ہیں۔ کئی لوگ عمر اور تجربے کے ساتھ سیکھتے ہیں تو ان کو احساس ہوتا ہے وہ غلط روش پر تھے۔ سوشل میڈیا پر سنہ 2009 یا 2010 سے ہوں۔ ان پندرہ سالوں میں انگنت لوگوں نے بہت سالوں بعد معذرت کی ہے۔ وقت کے ساتھ انسان میچور ہو جاتا ہے۔ جب معاشی حادثات پیش آتے ہیں تب عقل ٹھکانے آتی ہے۔ جب لوگ سسٹم کو سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ان کے جذبات ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ جب یہ احساس جاگتا ہے کہ آج تک جو نعرے لگائے وہ سب ڈھکوسلہ نکلے تب مشتعل مزاجی ختم ہونے لگتی ہے۔
اسی واسطے میں یہ دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی اکثریت پینتیس سال بعد میچور ہونے لگتی ہے۔ سب نہیں، اکثریت کی بات کر رہا ہوں۔ ورنہ تو یوسفی صاحب بہترین کہہ گئے کہ سب سن رسیدہ سیانے نہیں ہوتے کچھ بیوقوف لوگ بھی بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ ٹین ایجرز تو یوں بھی لاروا سٹیج میں ہوتے ہیں۔ اس عمر میں ایموشنز عروج پر ہوتے ہیں۔ ہارمونز بیلنس نہیں ہوتے چنانچہ اسی عمر کے بچے سیاسی و مذہبی گروہوں کا خام مال بن جاتے ہیں۔ ایموشنل فول بن جاتے ہیں۔ اگر فیسبک نے کبھی یہ چوائس دی کہ آپ اپنی فالونگ کی ایج سیٹ کر سکیں تو میں پینتیس سال سے اوپر ایج لمٹ سب سے پہلے سیٹ کروں گا۔
آپ کو کسی کی کوئی بات پسند نہ آئے۔ کوئی دل پر بوجھ محسوس ہو۔ کسی سبب غصہ آنے لگے تو آپ بس ایک کام کیا کریں۔ اس شخص کو انفالو یا بلاک کر دیا کریں۔ گالم گلوچ پر اُترنا، توں توں میں میں کرنا، اوئے توئے کی زبان بولنا، ٹرولنگ پر اُترنا اور ہر وہ حرکت کرنا جو غیر انسانی ہو وہ مناسب عمل نہیں ہے۔ جب ہر ایک کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اگلے کو بلاک کر سکتا ہے تو کیجئیے۔ سب انسان آپ کے موافق تو نہیں ہو سکتے۔ ہر کوئی آپ کی آواز تو نہیں بن سکتا۔ آپ ناموافق لوگوں سے آگے بڑھ جائیں۔ یقین مانیں توں تڑاں کے بغیر زندگی خوشگوار اور صحتمند گزرتی ہے۔

