Hum Jins Pasandi (2)
ہم جنس پسندی (2)
یہ مشق کسی ایک تہذیبب یا مذہب کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تقریبا ہر ثقافت اور مذہب اس حوالے سے شریک لطف رہا ہے۔ قدیم جاپان میں مردوں کی کم عمر لڑکوں سے جنسی لذت حاصل کرنے کے رواج کو Nanshoku کہا جاتا تھا، اس مقصد کے لئے اشرافیہ کے پاس wakashu کہلائے جانے والے لڑکے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح یونانیوں نے بھی لڑکے رکھے ہوئے تھے ارسطو نے اپنی کتاب پولیٹکس میں اس پر بحث کرتے ہوئے کہا ہے کہ Crete کے حکمران آبادی کنٹرول کرنے کے لئے pederasty بچہ بازی/ اغلام بازی کی پزیرائی کرتے تھے۔
چینی تہذیب میں بھی یہ رواج عام تھا۔ شہنشاہ Ai کی آستین پر ایک مرتبہ انکا عاشق سو گیا اس نوجوان کو اٹھانے کے بجائے آپ نے اپنی آستین ہی کاٹ لی۔ یہ دیکھتے ہوئے بعد میں درباری بھی ایک آستین نکال لیا کرتے تھے، اسی وجہ سے چین میں لڑکوں کا شوق رکھنے والوں کے لئے Passion of Cut Sleeves کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
فارس میں بھی یہ مرض عام تھا، سکندرِ اعظم کو فارس کے حکام نے Bagoas نامی ایک لڑکا بھی تحفہ میں دیا تھا، سکندر کویہ نوجوان بہت عزیز تھا رقص کے مقابلوں میں اسے نچوایا کرتا تھا، اس سے کھلے عام اپنے پیار کا اظہار بھی کردیا کرتا تھا Bagoas Kiss کی اصطلاح یہاں سے نکلی۔ عباسی دور میں خلیفہ الامین نے لڑکوں سے دربار میں رونق لگائے رکھی۔ عثمانی دور کی اشرافیہ بھی یونانیوں سے اس درجہ متاثر تھی کہ حماموں میں تلک نام کے کم عمر لڑکے رکھے جاتے جو مردوں کو نہلانے کے علاؤہ دیگر خدمات بھی سر انجام دیتے تھے۔
بابل کی تہذیب میں بھی مرد کا مرد سے جنسی تسکین حاصل کرنا ایک معمول کا فعل تھا۔ خوش بختی اور اچھی قسمت کے لئے ضروری تھا کہ مذہبی پیشواؤں سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ مصر کی تہذیب میں بھی یہ ہی چیز جاری رہی تھی۔ انکی تین ہزار سال پہلے کی گلگامش کی کہانی میں بھی بادشاہ گلگامش انکیدو نامی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
آج بھِی افغان معاشرے میں یہ رویہ مباح سمجھا جاتا ہے کہ سماجی شان و شوکت کے لیے نوعمر لڑکے رکھے جائیں۔ یہ رویہ اس حد تک مقبول ہے کہ 2015 میں امریکی جرنیلوں نے اپنے فوجیوں کو ہدایت کی تھِی کہ افغان "بچہ کشی" میں مداخلت نا کی جائے۔ شاید ہی کوئی افغان سردار ایسا ہو گا جس کے حجرے میں امرد موجود نا ہوں۔ ناصرف یہ کہ ان لڑکوں کی ملکیت قابل فخر ہے بلکہ ان کے توارد کے لیے جنگجو سرداروں کی خونی لڑائیاں بھِی عام ہیں۔ یہ لڑکے ناصرف جنسی راحت دیتے بلکہ فنکارانہ ذوق کی تسکین بھی کرتے ہیں جیسا کہ پازیب کے ساتھ رقص وغیرہ۔ اس حوالے سیاسی یا مذہبی وابستگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ مذہبی، متشرع طالبان اور افغان حکومت کے حامی سیکولر سردار، دونوں اس حمام میں ننگے ہیں۔
مذہب میں اس حوالے سے سب سے زیادہ بدنام مسیحی گرجا رہا ہے (پیغمبر عیسی کے ماننے والے عیسائی نہیں بلکہ مسیحی ہیں)۔ میڈیا کے فروغ نے بیسیویں اور اکیسیویں صدی کے دوران مسیحی گرجا کی ہم جنسی پرستی کا پول کھول دیا ہے حالانکہ گرجا پہ ایسے الزامات صدیوں سے لگتے آئے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ گرجا میں رہنے والی راہباووں کی بکارت کو محفوظ رکھتے ہوئے ان سے غیر فطری جنسی فعل کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
بعینہہ، یہودی برادری کی عبادت گاہوں (سینا گوگ) میں ہم جنسی اشتہاانگیزیوں کی شکایات کا انبار ہے۔ بودھ صوفی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ ابھی حال میں ہی تھائی لینڈ کی بودھ خانقاہوں میں نوعمر بودھ بھکشوو ں کے ساتھ عمر رسیدہ بھکشوو ں کی جنسی ذیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک ۱۳ سالہ بھکشو کی شکایت کے مطابق ۵۱ سالہ رہبر بھکشو اسے اپنے ننگے جسم کا مساج کرنے اور اپنے جسم کو چوسنے کا کہتے۔
پاکستان میں یہ روایت اردو کی رعایت سے آئی ہے حالانکہ اردو کی قبولیت عام سے پہلے بھی برصغیر کے مسلمانوں میں عشق افلاطونی (افلاطون کے نزدیک عورت سے محبت فضول ہے کیونکہ عورت سے جنسی عمل صرف نسل آ گے بڑھانے کے لیے ہے جب کہ عشق حقیقی کا حظ صرف نوعمر بغیر داڑھی کے لڑکوں سے ہی اٹھایا جا سکتا ہے) کی مضبوط ثقافت موجود تھی۔
اردو کی اولین تحریر سے بھی ۳۵۰ سال پہلے پیدا ہوئے سلطان علاوالدین خلجی کی اپنے غلام ملک کافور سے محبت پہ بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ خلجی کے دورِ حکومت میں ایک مبصر ضیا الدین بارانی نے خلجی کے آخری دنوں کا احوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان چار پانچ برسوں میں جب سلطان اپنی یاداشت کھونے لگے تھے تو وہ ملک کافور کے ساتھ گہری محبت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ کچھ ایسی ہی حکایات سلطان محمود غزنوی اور ان کے چہیتے مملوک ایاز کے لیے بھی ہیں۔ تزک جہانگیری میں مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی لڑکوں پہ اپنی شبینہ فتوحات کا ذکر کیا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد سرمد پر اپنی تحریر کی ہوئی کتاب حیاتِ سرمد، میں صوفی سرمد کی اپنے محبوب ابھےچند کے لیے سرمستی عشق کے بارے میں لکھا ہے۔
پنجابی کے نامور شاعر اور لاہور کے صوفی شاہ حسین اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق سے کون واقف نہیں ہے؟ اس عشق کی گہرائی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنے محبوب کا نام اپنے نام کا مستقل حصہ بنا لیا اور اب بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ مادھو لال حسین ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ دو الگ الگ نام تھے۔
اسلامی تصوف میں اس حوالے کی روایت پہلے عرب (شاعر ابو نواس) اور پھر فارس (عمر خیام اور حافظ شیرازی کا مشہور شعر تو ہر کوئی کس لذت سے سناتا ہے کہ اگر وہ شیراز کا ترک لڑکا مجھے مل جائے تو میں اس کے گال کے تِل کے بدلے سمر قند اور بخارا کے شہر اسے بخش دوں) سے وارد ہوئی۔ اس سلسلے میں صوفی سلسلے کی مشہور بزرگ شاہ شمس تبریز اور مولانا روم کا عشق زبان زد عام ہے۔
1244 میں مولانا رومی کی جب شمس تبریز سے ملاقات ہوئی تو ان کی عمر 37 برس اور شمس تبریز کی عمر 60 برس تھی۔ اس وقت تک مولانا رومی ایک مستند و معتبر عالم بن چکے تھے۔ ان کا خطبہ سننے سینکڑوں ہزاروں لوگ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی فہرست طویل تھی۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال، باعزت اور کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ شمس نے رومی کو چھوڑ جانے کا فیصلہ کیا تو رومی نے شمس کی شادی اپنی منہ بولی بیٹی کیمیا سے کر دی۔
یہ حقیقت بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جوں جوں رومی شمس سے جذباتی طور پر قریب آتے گئے رومی اپنی بیوی سے رومانوی طور پر دور ہوتے گئے اور شمس بھی اپنی نو بیاہتا بیوی کیمیا سے ازدواجی تعلقات نہ قائم کر سکے۔ اس تعلق کی شرمندگی سے بچنے کے لیے رومی کے بیٹوں نے شمس کو قتل کر دیا۔
اردو غزل کے بادشاہ، ریختہ کے استاد، صوفی ابن صوفی سید محمد تقی (ولد سید محمد متقی جو ایک معروف مزار کے سجادہ نشین تھے) عرف میر تقی میرؔ، جن کو خداۓ سخن کا لقب دیا جاتا ہے، نے شاعری کے اپنے دیوان کے متعلق کہا تھا کہ میرے دیوان میرے معشوق لڑکے کے لکھا گیا ہے۔ ان کے معشوق لڑکے کے حسن کے قصے اور طرحداریوں کے افسانے اس کے خال و خد سے لے کر عشوہ طرازیوں تک چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح پرانی دلی کے قدماء میں سے ایک بزرگ شاعر شیخ شرف الدین مضمون نے اپنے محبوب کے بارے میں لکھا کہ میرے محبوب کے چہرے پر داڑھی آ گئی ہے جبکہ میری داڑھی سفید ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اب بھی ساری رات مجھ سے مصاحبت کرتا ہے۔ ہندو اردو شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھ پوری بھی اپنے بیٹے کے عمر کے لڑکے کے عشق میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں کہ فراقؔ گھورکھ پوری کی ہم جنسیت کی وجہ سے ان کے بیٹے نے خود کشی کر لی تھی کہ اس کا باپ اس کے دوستوں سے بھی باز نہ آتا تھا۔)
ایک فقیہ اعظم نے اس رویے کا علاج یہ تجویز کیا تھا کہ اپنے شاگرد کا سر منڈوا دیا تاکہ وہ خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوران سبق امام صاحب کی توجہ منتشر نا کروا دیں۔ مگر کیا کیجئے، مسئلہ حل نہیں ہوا اور اس کے بعد استاد محترم اپنے عزیز شاگرد کو اپنی مسند کے عقب میں یعنی اپنی نظروں سے اوجھل بٹھاتے۔ کیا اس سب کے بعد مفتی الشیخ عزیز الرحمان پہ گرفت کی جانی چاہیے؟ جواب آپ کا ہے۔