Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi
  4. Insani Nafsiat Par Manfi Khabron Ke Manfi Asraat

Insani Nafsiat Par Manfi Khabron Ke Manfi Asraat

انسانی نفسیات پر منفی خبروں کے منفی اثرات

آج کا زمانہ انفارمیشن کا ہے، دنیا جہاں کی خبریں منٹوں میں آپ کے موبائل اسکرین پر پہنچ جاتی ہیں۔ درجنوں نیوز چینل موجود ہیں جو دنیا بھر کی پل پل کی خبریں نشر کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا پر ہر صارف ایک رپورٹر بنا ہوا ہے اور نیوز بریک کرنے کے لئے بے تاب بیٹھا ہے۔ اگر آپ کبھی نیوز فیڈ چیک کریں تو آپ کے سوشل میڈیا دوستوں کی طرف سے اس قسم کی بے شمار خبریں پوسٹ ہوتی رہتی ہیں۔

بدقسمتی سے ان میں سے اکثر خبریں منفی ہوتی ہیں۔ منفی سے مراد وہ خبریں ہیں جو تشدد، ہلاکتوں اور اموات، ظلم و زیادتی، جنگ، خون خرابہ، بگڑتی ہوئی معاشی و سیاسی صورتحال اور جھگڑوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ان منفی خبروں کو ہر قسم کے میڈیا پر خوب پذیرائی ملتی ہے خصوصا سوشل میڈیا پر۔ بعض اوقات منفی خبروں کی اس قدر بھرمار ہوتی ہے جو ایک انسان کو نفسیاتی طور پر بیمار بنانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ عموما ہمارے معاشرے میں نفسیاتی بیماری کو پاگل پن کا مترادف سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ایک جیتا جاگتا سالم انسان بھی اس کا شکار ہو سکتا ہے۔ نصف سے زائد افراد کو اضطراب، بے سکونی اور ذہنی دباؤ کی صورت میں کسی نہ کسی وقتی یا دائمی نفسیاتی عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ان میں سے بیشتر عوارض کی وجوہات میں منفی خبریں شامل ہیں۔

ہر انسان کی ذہنی استعداد اور اعصابی قوت کے مطابق ان خبروں کا اثر ہوتا ہے۔ ان میں سے اکثر خبریں آپ کے اندر اضطراب (اینگزائٹی)، اداسی، بے سکونی، نیند میں کمی اور ذہنی دباؤ (اسٹریس) کو جنم دیتی ہیں۔ سائیکالوجی ٹوڈے نامی میگزین میں برطانیہ کے یونیورسٹی آف سسیکس (Sussex) کے سائیکالوجی پروفیسر گراہم ڈیوی جو اضطراب (اینگزائٹی) کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، اپنی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں جس کا مقصد منفی خبروں کا نفسیاتی مطالعہ تھا۔ اس میں تین مختلف نیوز بلیٹن بنائے گئے، ایک میں صرف منفی خبریں رکھی گئیں، دوسرے میں مثبت خبریں اور تیسرے میں غیر جانبدار (نیوٹرل) خبریں۔ جن افراد کو منفی خبریں دکھائی گئیں ان میں دیگر لوگوں کے مقابلے میں اداسی اور اضطراب کی علامات بہت واضح تھیں۔ پروفیسر ڈیوی مزید حیرت انگیز حقائق بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنہوں نے منفی خبروں کا بلیٹن دیکھا تھا ان کے اندر اپنی پریشانیوں کے حوالے سے زیادہ شدت پائی گئی۔ انٹرویو کے دوران چھوٹی سی پریشانی بھی اس طرح بیان کرنے لگے جیسے کوئی بہت بڑا صدمہ ہو۔ گویا ان کو اپنی ذاتی زندگی میں بھی منفی پہلو شدت سے نظر آنے لگا۔

چنانچہ منفی خبروں کی ترویج معاشرے کے لئے خطرناک ہو سکتی ہے جس سے اضطراب، مایوسی اور اداسی جیسے عوامل پھیل سکتے ہیں جن سے تباہ کن نتائج جنم لیتے ہیں۔ بلاشبہ خبروں سے واقف ہونا ہر انسان کا حق ہے، ہم میں سے ہر شخص کوشش کرتا ہے کہ حالات سے باخبر رہے۔ لیکن باخبر رہنے اور پھیلانے کا طریقہ اعتدال پر استوار ہونا چاہیے۔ کئی نیوز چینل منفی خبروں کو سنسنی خیز بنا کر پیش کرتے ہیں جس کے پیچھے بہت سی وجوہات کارفرما ہوتی ہیں، لیکن ایک عام انسان سنسنی پھیلانے کا یہ انداز سوشل میڈیا پر اپنا لیتا ہے۔ آج کی دنیا میں اضطراب اور سنسنی بہت آسانی سے پھیل جاتی ہے، خصوصا منفی خبروں کے ساتھ کوئی تصویر یا ویڈیو ہو تو اضطراب کا مادہ بڑھ جاتا ہے اور انسان کے اعصاب کو بری طرح تباہ کر دیتا ہے۔ اس قسم کے المناک سانحات پر تصویریں اور ویڈیو بہت آرام سے بن جاتی ہیں اور سوشل میڈیا کے توسط سے پھیل جاتی ہیں۔ بعض سوشل میڈیا صارف کی وال دیکھیں تو سنسنی خیز انداز میں منفی خبروں کی بھرمار نظر آتی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دنیا میں خصوصا پاکستان میں ہر طرف اندھیر نگری ہے، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو رہا اور ہر شخص درندہ اور ظالم ہے۔

دراصل یہ انسانی جبلت ہے کہ وہ منفی باتوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ہمارا ذہن ان باتوں کی طرف توجہ دیتا ہے جو منفی ہوں یا ڈر کا موجب ہوں یا جو ہمیں مضطرب کر دے۔ جس کو علم نفسیات کی اصطلاح میں "منفی تعصب" (Negativity Bias) کہتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی سابقہ پروفیسر اور (Habits of a Happy Brain) کی مصنفہ لوریٹا بروننگ کہتی ہیں کہ انسان نفسیاتی طور پر پریشان کن خبروں کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے جس کی وجہ سے ہم منفی خبروں کو نظر انداز نہیں کر پاتے اور مثبت پہلوؤں اور باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ہمارا ذہن ہمیں منفی باتوں اور رویوں کی طرف دھکیلتا ہے جو ان خبروں کی صورت میں منعکس ہوتا ہے جنہیں ہم پسند کرتے ہیں۔

اگر نیوز چینل ایمانداری سے خبریں پیش کریں تب بھی ہمارا دماغ منفی خبروں کی طرف متوجہ ہوگا۔ اسی جبلت کے تحت انسان اس قسم کی خبروں کی طرف کشش محسوس کرتا ہے اور حقیقی زندگی یا سوشل میڈیا پر اس کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن ہم اس بات کو درک نہیں کرتے کہ منفی رجحان پھیلا کر ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے بلکہ زیادتی کر رہے ہیں۔ ایک حد تک خبروں سے باخبر رہنا ضروری ہے لیکن جب ہم ان خبروں کو منفی تڑکا لگا کر پیش کریں اور اداسی و مایوسی کا پرچار کریں یا پھر یہ منفی خبریں اس قدر زیادہ ہو جائیں کہ عام انسانوں کو بری طرح متاثر کرنے لگ جائیں تو یہ بلاشبہ غلط ہے۔ اس کا اثر ہمارے رویوں پر ہوتا ہے، معاشرے میں عدم برداشت اور غم و غصہ بڑھ جاتا ہے جو بعض اوقات کسی المیے کو بھی جنم دیتی ہے۔ ذاتی و دفتری زندگی میں ہمارا رویہ سخت اضطراب اور مایوسی کی وجہ سے اطراف میں موجود لوگوں کے ساتھ برا ہو جاتا ہے۔ یقینا بہت کم لوگ ان باتوں کا ادراک کرتے ہیں لیکن اس پہلو سے معاشرے کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔

البتہ ان خبروں کا اثر مختلف لوگوں پر ان کی دماغی صلاحیتوں اور اعصاب کی مضبوطی کے مطابق مختلف ہوتا ہے۔ لہذا یہ بات نوٹ کریں کہ کن خبروں کا آپ پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اگر خبروں کی کوئی خاص قسم آپ کو بری طرح مضطرب کر دیتی ہے جس کی وجہ سے آپ کے رویے میں تبدیلی آجاتی ہے اور سخت پریشان ہو جاتے ہیں تو ان خبروں کو دیکھنے یا پڑھنے سے گریز کریں۔ ان افراد کی وال سے بھی دوری اختیار کریں جو منفی خبروں کو زیادہ نشر کرتے ہیں۔ آپ خود بھی منفی خبروں کا پرچار کم سے کم کریں اور اگر نشر کرنا ناگزیر ہو تو اس میں تڑکا لگانے یا سنسنی پھیلانے سے اجتناب کریں، زیادہ سے زیادہ مثبت باتوں کا پرچار کریں۔ نفسیاتی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ سونے سے ایک گھنٹہ موبائل فون، لیپ ٹاپ اور دیگر الیکٹرانک آلات کا استعمال بند کر دیں۔ نیز سوشل میڈیا کا استعمال بھی آپ کی بے چینی میں اضافہ کر سکتا ہے لہذا سونے سے کچھ دیر قبل اس کا استعمال بھی موقوف کر کر دیں۔

مثبت رہیں اور اسی کا پرچار کریں۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo