Tuesday, 18 February 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Imran Ali Shah
  4. Pak Tea House Layyah, Adab Ka Aik Sang e Meel

Pak Tea House Layyah, Adab Ka Aik Sang e Meel

پاک ٹی ہاؤس لیہ، ادب کا ایک سنگ میل

ایک قوم کی شناخت اور اس کے تشخص کا احاطہ کرنے کے لیے، اس کے تاریخی پسِ منظر، ادب اور ثقافتی ورثے کا جائزہ لیے بغیر ممکن ہی نہیں ہو سکتا، برصغیر پاک و ہند کو، ادب و ثقافت کے حوالے سے نہایت اہم مقام حاصل رہا ہے۔

شاعری، مصوری، موسیقی، تصانیف، قصہ خوانی، مرثیہ نگاری، مضمون نگاری، مزاح نگار، ڈرامہ اور خطاطی کے ساتھ ساتھ، شاید ہی ادب کی کوئی ایسی صنف ہوگی جس پر اس خطے کے باشندوں کو ملکہ حاصل نہ ہو، مرزا اسد ﷲ خان غالب، میر تقی میر، اکبر الہ آبادی، میر انیس، میر دبیر، رابندر ناتھ ٹیگور، ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، مولانا حسرت موہانی، مولانا الطاف حسین حالی، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت ﷲ شہاب، جیسے ہزاروں نام ہیں، جو ادب کے افق پر آج بھی جگمگا رہے ہیں، ان شخصیات اور ان جیسی دیگر عظیم ہستیوں نے ادب کا ایک بیش بہا خزانہ بطور ورثہ عطاء کیا، تقسیم ہند نے زمین کے سینے پر تو لکیریں کھینچ دیں مگر ادب و ثقافت نے پاک و ہند کے باسیوں کو آج تک جوڑے رکھا ہے، بقول معروف بھارتی شاعر جاوید اختر۔

پنچھی، ندیا، پون کے جھونکے

کوئی سرحد نہ انہیں روکے

سرحدیں انسانوں کے لیے ہیں

سوچو تم نے اور میں نے

کیا پایا انساں ہو کے

ادب کا بھی کچھ ایسا ہی کمال ہے کہ ادب نے سرحدوں کو محض سیاسی حیثیت تک ہی قبول کیا ہے، معرضِ وجود میں آنے کے بعد پاکستان نے بطور ایک آزاد ملک کے اپنے نہایت محدود یا یوں سمجھ لیا جائے کہ نہ ہونے کے برابر وسائل کے باوجود، اپنے ادبی و ثقافتی امور کو بطریق احسن چلایا، جس کی زندہ و جاوید مثال پاک ٹی ہاؤس لاہور ہے۔

پاک ٹی ہاؤس لاہور، پاکستان میں واقع ایک چائے خانہ ہے جو شہر کے فنون لطیفہ سے شغف رکھنے والی نامور شخصیات کی بیٹھک کے طور پر مشہور تھا۔ یہاں ثقافتی، ادبی اور فنی شخصیات محافل کا انعقاد کرتی تھیں۔ یہاں آنے والی چند چیدہ شخصیات میں فیض احمد فیض، ابن انشا، احمد فراز، سعادت حسن منٹو، منیر نیازی، میرا جی، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، افتخار جالب، عزیز الحق، کشور ناہید، مظفر علی سید، جاوید شاہین، شاہد حمید، انیس ناگی، سعادت سعید، زاہد ڈار، سلیم شاہد اور سید قاسم محمود شامل ہیں۔

یہ مقام دراصل نہ صرف مشہور ادبی و فنی شخصیات کی بیٹھک تھی بلکہ یہ قہوہ خانہ لاہور اور ملک بھر کے نوجوانوں کے لیے ان شخصیات سے ملاقات کا ذریعہ اور سیکھنے کا ذریعہ بھی رہی ہے۔ بلاشبہ یہ مقام ایک چوپال کی سی حیثیت رکھتا تھا جہاں مختلف ذہنوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنا نکتہ نظر بیاں کرنے تشریف لاتے تھے، ادب پر بڑے شوق سے بحثیں ہوتی تھیں۔

اس ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں سے سوائے چند ایک کے باقی کسی کا بھی کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا کسی ادبی پرچے میں کوئی غزل، نظم یا کوئی افسانہ لکھ دیا تو پندرہ بیس روپے مل جاتے تھے لیکن کبھی کسی کے لب پر تنگی معاش کا شکوہ نہیں تھا ایسا کبھی نہیں تھا کہ کسی دوست کی جیب خالی ہے تو وہ ٹی ہاؤس کی چائے اور سگریٹوں سے محروم رہے جس کے پاس پیسے ہوتے تھے وہ نکال کے میز پر رکھ دیتا تھا جس کی جیب خالی ہوتی علیم الدین صاحب اس کے ساتھ بڑی فراخ دلی سے پیش آتے تھے اس وقت کے ادیبوں میں سے شاید ہی کوئی ادیب ہو جس نے پاک ٹی ہاؤس کی چائے کا ذائقہ نہ چکھا ہو۔

ہجرت کرکے آنے والوں کو پاک ٹی ہاؤس نے اپنی گود میں پناہ دی کسی نے کہا میں انبالے سے آیا ہوں میرا نام ناصر کاظمی ہے، کسی نے کہا میں گڑھ مکستر سے آیا ہوں میرا نام اشفاق احمد ہے، کسی نے کہا میرا نام ابن انشاء ہے اور میرا تعلق لاہور سے ہے۔ وہ بڑے چمکیلے اور روشن دن تھے ادیبوں سارا دن ٹی ہاؤس میں گزرتا تھا زیادہ تر ادیبوں کا تخلیقی کام اسی زمانے میں انجام پایا تھا۔ ناصر کاظمی نے بہترین غزلیں اسی زمانے میں لکھیں، اشفاق احمد نے گڈریا اسی زمانے میں لکھا۔

شعر و ادب کا یہ تعلق پاک ٹی ہاؤس ہی سے شروع ہوا تھا، پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوں تو دائیں جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ایک صوفہ لگا ہوا تھا سامنے ایک لمبی میز تھی۔ میز کی تینوں جانب کرسیاں رکھی ہوئی تھیں ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، پروفیسر سید سجاد باقر رضوی، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد وغیرہ کی محفل شام کے وقت اسی میز پر لگتی تھی۔

اے حمید، انور جلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء وغیرہ قائد اعظم کی تصویر کے نیچے جو لمبی میز اور صوفہ بچھا تھا وہاں اپنی محفل سجاتے تھے ڈاکٹر عبادت بریلوی اور سید وقار عظیم بھی وقت نکال کر پاک ٹی ہاؤس آتے تھے ہر مکتب فکرکے ادیب، شاعر، نقاد اور دانشور اپنی الگ محفل بھی سجاتے تھے۔

سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال احمد رضوی، ناصر کاظمی، سجاد باقر رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، سید قاسم محمود، مبارک احمد، انورجلال، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھے، پاک ٹی ہاؤس بظاہر تو ایک عمارت ہی ہے مگر، حقیقت میں یہ ایک ایسی جگہ ہے جو کہ اپنے اندر ہزاروں داستانیں سمیٹے ہے، اسی لیے یہ سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔

لاہور اگر پاکستان کا دل ہے تو جنوبی پنجاب کی حسین سرزمین میں ضلع لیہ کی حیثیت بھی اس علاقے کے دل کی سی ہے، لیہ اپنی علمی ادبی ثقافتی اور تاریخی حیثیت سے ایک اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں کے شعرا اُدبا اور مورخین اپنی تحقیق اور کلام کی وجہ سے پورے بر صغیر میں معروف ہیں۔ شاعر ادیب یا دانشور جو کچھ تخلیق کرتا ہے اس کی نگارشات میں ماحول اور علاقے کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اہل قلم معاشرے کا حساس ترین طبقہ ہوتا ہے اس لیے وہ معمولی سی بات کو بھی زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتا ہے ان کی یہی حساسیت تخلیقات کا بحث بنتی ہے۔

علمی و ادبی لحاظ سے لیہ بہت زرخیز سرزمین ہے اور اسے شہر دانش یا ادب کا لکھنو بھی کہا جاتا ہے جہاں ایسی ایسی نابغہِ روزگار شخصیات نے ادب کی ابیاری فرمائی جن کے اسمائے گرامی آج بھی آسمان شعر و سخن پر نیّرِ تاباں کی طرح روشن اور درخشاں دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کی علمی و ادبی محافل اور معاشرے پر دبستانِ لکھنو کا گمان ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لیہ کو علم و ادب کا ایتھنز یا یونان کہا جائے تو بے جا نا ہوگا۔ جغرافیائی لحاظ سے لیہ پسماندہ پنجاب کا پسماندہ ترین علاقہ ہے اور لیکن مضافات کے تمام شہروں میں سے علمی و ادبی لحاظ سے کسی سے کم نہیں ہے۔ لیہ وہ صدف ہے جس کی کوکھ سے ایسے ایسے لعل و جواہر اور موتی نمودار ہوئے جن کی چمک نے آج بھی برصغیر کو منور کیا ہوا ہے تھل کے ریگزاروں میں اُفقِ ادب پر ایسے آفتاب طلوع ہوئے۔ جس کی سنہری کرنے آج بھی جہان ادب کو منور کیے ہوئے ہیں۔

صغیر پاک و ہند کے نامور ادیب ماہر تعلیم و ہنر جن کی تخلیقات کو ملک اور بیرونِ ملک ہر جگہ تسلیم کیا گیا ہے اُن کا تعلق بھی سرزمین لیہ سے تھا جن میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ وہ جو نہرو یونیورسٹی دہلی میں صدر شعبہ زبان و ادب ادبیات رہے۔ معروف ماہر تعلیم عبداللہ نیاز مرحوم ڈاکٹر مہر عبدالحق سمرا اور معروف مورخ فقیر میاں الہی بخش سرائی، ڈاکٹر خیال امروہوی، نسیم لیہ، ڈاکٹر سید قیصر رضوی، ڈاکٹر سید فضل حق رضوی، غافل کرنالی، پروفیسر سید شہباز نقوی (مرحوم) کے اسمائے گرامی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ان اصحاب کے ساتھ ساتھ دیگر کئی ایسے لوگ ہیں جو ادب کے افق پر نہ صرف لیہ بلکہ پورے وسیب کا تعارف اور حوالہ مانے جاتے ہیں۔

1982 میں لیہ کو ضلع کا درجہ ملنے کے بعد سے آج تک بہت سے انتظامی افسران لیہ میں اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہے، ان افسران اس ڈسٹرکٹ کی بہتری کے لیے گونا گوں کارہائے نمایاں سرانجام دیے، آج سے چند ماہ قبل ڈسٹرکٹ لیہ میں امیرہ بیدار پہلی خاتون ڈپٹی کمشنر کے طور پر تعینات ہوئیں، امیرا بیدار کا تعلق ادب کے ایک عظیم گھرانے سے ہے۔

ان کی والدہ محترمہ صوفیہ بیدار صاحبہ اردو اور پنجابی کی نامور پاکستانی ادیبہ، شاعرہ، کالم نگار، صحافی اور بیوروکریٹ ہیں۔ ان کی تحریروں میں ملکی و معاشی اور معاشرتی مسائل کو بہترین پیرائے میں بیان کیا جاتا ہے۔ وہ ملکی اور بیرون ملک ادبی تقاریب اور مشاعروں میں خصوصی طور پر بلائے جاتے ہیں۔ قارئین اخبارات میں چھپنے والے ان کے کالمز ہزاروں کی تعداد میں بڑے شوق اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے اور متاثر ہوتے ہیں۔

صوفیہ بیدار کی اردو اور پنجابی شاعری بہت عمدہ اور خوب صورت ہوتی ہے۔ وہ ایک افسر اعلی کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض پوری دیانتداری کے ساتھ سر انجام دیتی ہیں وہ ڈائریکٹر آرٹس کونسل کے عہدے پر بھی فائز رہ چکی ہیں۔ اپنی والدہ کی جانشینی کرتے ہوئے اور اپنے خاندان کی ادبی روایات کو اپنے ہمراہ رکھتے ہوئے امیرا بیدار نے لیہ کے ادبی حلقوں کو یکجا کیا اور ان کو بہترین ماحول میسر کرنے کی غرض سے، پاک ٹی ہاؤس لیہ جیسا عظیم الشان منصوبہ ریکارڈ مدت میں مکمل کروایا۔

ڈپٹی کمشنر امیرا بیدار نے میونسپل پبلک لائبریری لیہ جو شہر کے وسط میں موجود ہے اس میں پنجاب کا دوسرا پاک ٹی ہاؤس لیہ قائم کر دیا، ڈپٹی کمشنر امیرا بیدار نے پاک ٹی ہاؤس لیہ کا افتتاح کیا۔ اس پروقار تقریب میں پاک ٹی ہاؤس کے صدر پروفیسر گل عباس اعوان، جنرل سیکرٹری و فوکل پرسن محمد صابرعطاء، سماجی شخصیت یاسر عرفات، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شاہد ملک، ڈپٹی ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ کامران، سابق پرنسپلز ڈاکٹر ظفر عالم ظفری، ڈاکٹر مزمل حسین، ڈاکٹر حمید الفت ملغانی، پرنسپل ڈی پی ایس اکرم جاوید، صدر انجمن تاجران اظہرہانس، سپورٹس آفیسر امتیاز بھٹی، پروفیسر فرحان یاسر چاند، پروفیسر صبیحہ ہاشمی، پروفیسر شیخ مقبول الہی، ڈی ایف او فضل الرحمان، رینج فاریسٹ آفیسر امجد ندیم رونگھہ، پرنسپل ڈی پی ایس محمداکرم جاوید، سابق تحصیل ناظم عابد انوار علوی، پریس سیکرٹری احسن عدیل، ندیم بلوچ، محمد عمر شاکر، نعیم افغانی، ملک رب نواز ڈنہار، محمد اقبال دانش، سلیم اختر جونی، یاسین بھٹی، صوفی صدیق طاہر، میڈیا نمائندگان موجود تھے۔ تقریب میں مقامی ادیب و شعراء شاکر کاشف، ضیاءانجان سرائیکی، ڈاکٹر حمیدا لفت ملغانی، مہر نوید گل، پرویز منیر، شمشا د سرائی، تنویرجامی نے کلام جبکہ راول بلوچ نے نغمہ پیش کیا۔

افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر امیرا بیدار نے کہاکہ تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے ٹی ہاؤس کلیدی کردار ادا کرے گا ذہنوں کو تر و تازہ رکھنے اور علم کی ترویج علم خانوں سے ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چوک اعظم اور دیگر تحصیلوں میں بھی ٹی ہاؤس قائم کریں گے پاک ٹی ہاؤس لیہ علم و ادب کا گہوارہ بنے گا۔ صدر پاک ٹی ہاؤس ڈاکٹر گل عباس اعوان نے کہا کہ پاک ٹی ہاؤس کے قیام پر دلی مسرت ہوئی اہلیان لیہ ڈپٹی کمشنر کی ان کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پرنسپل ڈی پی ایس اکرم جاوید نے کہاکہ علم و ادب کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ پاک ٹی ہاؤس لیہ اہلیان شہر کے لئے بہترین تحفہ ہے۔

ڈاکٹر ظفر عالم ظفری نے کہاکہ ضلع میں ٹی ہاؤس کا قیام خوش آئند امر ہے اہل علم و ادب ٹی ہاؤس سے معاشرے کی سمت کے تعین میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری اور پرویز منیر نے اپنی تصانیف پاک ٹی ہاؤس کے لئے ڈپٹی کمشنر کو پیش کیں۔ پاک ٹی ہاؤس لیہ نوید سحر ہے، شدت پسندی کے تشویشناک رویوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے فروغ ادب بہترین ذریعہ ہے، ہماری آنے والی نسلوں کی درست سمت میں راہنمائی اور مؤثر شخصیت سازی کے لیے، ادب سے گہری وابستگی استوار کرنا از حد ضروری ہو چکا ہے، اب یہ لیہ کی غیور اور باشعور عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بہترین کاوش کو تاحیات کامیاب بنائیں۔

About Syed Imran Ali Shah

Syed Imran Ali Shah, a highly accomplished journalist, columnist, and article writer with over a decade of experience in the dynamic realm of journalism. Known for his insightful and thought-provoking pieces, he has become a respected voice in the field, covering a wide spectrum of topics ranging from social and political issues to human rights, climate change, environmental concerns, and economic trends.

Check Also

Falasteen Israel Tanaza (11)

By Rizwan Ahmad Qazi