Khushiyon Ki Talash
خوشیوں کی تلاش

میرا کالم "اچھی اچھی چند خبریں" روزنامہ سرزمین لاہور میں شائع ہوا جو موجود حکومتی کارکردگی کے چند چھوٹے مگر مثبت اور اچھے پہلووں کو اجاگر کرنے سے متعلق تھا تو بہت سے دوستوں نے بڑی تعریف کی کہ مایوسی کے اس دور میں اچھی اور مثبت خبروں کا آنا اور پھر ایسی خبروں کو اجاگر کرکے ان کی تعریف کرکے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر چھائے اندھیرے دور کرنا ایک بہت اچھا عمل ہے جو آج نایاب تو نہیں مگر کم یاب ضرور ہوتا جارہا ہے لیکن دوسری جا نب چند لوگوں نے اس کالم کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا کہ یہ تو حکومت وقت کے اچھے کاموں کی تعریف ہے۔ جسے انہوں نے حکومت وقت کی خوشامد قرار دیا ہے۔
ہر پڑھنے والے کا سوچنے اور سمجھنے کا اپنا اپنا الگ انداز ہوتا ہے۔ میں تمام دوستوں کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے نہ صرف یہ کالم پڑھا بلکہ اپنی اپنی سوچ کے مطابق اس پر تبصرہ کرکے میری حوصلہ افزائی فرمائی وہ سب میرے لیے قابل احترام ہیں اور ان کی رائے اور تبصرہ میری ذات سے محبت کا ثبوت ہے۔ میرے نزدیک لوگوں کی زندگی اور معاشرے میں پہلے سے موجود بےپناہ مایوسی اور دکھ میں کمی لانے کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم ان تک اچھی اور مثبت خبریں پہنچائیں اور ہیجان انگیز اور منفی خبروں سے ان کی مایوسی میں اضافے کا باعث نہ بنیں۔ ان تک چند لمحوں کی خوشیاں ضرور بانٹیں یہ کسی کی خوشامد نہیں بلکہ انسان دوستی کا تقاضا اور صحافتی فرض ہوتا ہے کہ ہم صرف تلخیوں کو ہی نہیں بلکہ خوشیوں کو تلاش کریں اور مایوس چہروں پر یہ خوشیاں بکھیر دیں۔
میرا یہ کالم کسی کی خوشامد یا تعریف کی غرض سے ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ وہ خوشیاں بکھیرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش تھی جو بطور ایک مثبت سوچ رکھنے والے ہر صحافی اور فرد کا فرض ہوتا ہے کیونکہ صحافت کا بنیادی کام عوام میں شعور پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ایک دوست نے کہا کہ جاوید صاحب! آپ نے اس منفی اور مایوس دور میں آج کے معاشرتی دکھوں سے خوشیاں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے یہ بڑا مشکل مگر اہم کام ہے جسے صحافتی ذمہ داری سمجھنا بے حد ضروری ہے اس لیے چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ڈھونڈھنے کا یہ سفر جاری رکھیں کیونکہ مایوسی سے بچنے کے لیے خوشیوں کی تلاش اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی ضروت اس لیے ہے کہ خوشی ہی ایک ایسا نور اور روشنی ہے جو مایوسی کے اندھیروں کو مٹا سکتی ہے۔
جب ہم دوسروں کی زندگی میں خوشی لانے کا سبب بنتے ہیں تو درحقیقت ہم اپنے دل کی مایوسی کو بھی ختم کر رہے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مایوسی ایک اندھیری گلی کی مانند ہوتی ہے جہاں روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی اس سے بچنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم خوشیوں کی تلاش کریں کیونکہ خوشی ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی کو جتنا زیادہ بانٹا یا تقسیم کیا جائے یہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہےاور روشنی کے یہ چراغ ہمیشہ سچ بولنے اور لکھنے سے ہی روشن کئے جا سکتے ہیں۔ چھوٹی خوشی پر بڑا جشن خوشی کو دوبالا کر دیتا ہے۔
مایوسی اکثر اس وقت جنم لیتی ہے جب ہم اپنی زندگی میں صرف مسائل، ناکامیوں یا محرومیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زندگی دکھوں اور غموں میں گِھر کر رہ جاتی ہے تو یہ چھوتی چھوٹی خوشیاں ہی ہوتی ہیں جو ان میں کمی لانے کا باعث بنتی ہیں۔ جب ہم اپنے ارد گرد چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو محسوس کرتے ہیں تو یہ خوشیاں ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ زندگی میں مثبت پہلو بھی موجود ہیں۔ ہمارے اباجی کہتے تھےکہ مایوسی گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ مایوسی اور ناامیدی کی سختی سے ممانعت فرماتے ہیں۔ اللہ اور اسکے رسول کا ماننے والا کبھی مایوس اور ناامید نہیں ہوتا کیونکہ کی وہ اپنے خدا پر یقین رکھتا ہے اور ہر آنے والے دن کو گزرے ہوئے دن سے بہتر سمجھتا ہے۔
ہم نے اپنے اباجی سے ایک مرتبہ پوچھا کہ اباجی مایوسی کا علاج کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ہر حال میں خوش رہنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ پر مکمل یقین کے ساتھ ساتھ ہر حال میں اس کی شکرگزاری کو اپنائیں، مثبت اور اچھے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں اور مایوسی پھیلانے والوں سے دور رہیں ان لوگوں کے قریب جا ئیں جوحوصلہ اور رہنمائی دیتے ہیں، چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بڑے طریقے سے منائیں روزمرہ زندگی میں خوش ہونے کے موقعے تلاش کریں، سب سے بڑھ کر دوسروں کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ رکھیں۔ کسی ضروت مند کی مدد کریں کسی کی تھوڑی سی دل جوئی کریں، کسی کو اچھے الفاظ کہیں، کیونکہ خدمت انسانیت بڑی سے بڑی مایوسی کو رد کر دیتی ہے۔
خوشیوں کی تلاش ایک ایسا سفر ہے جو ہر انسان اپنی زندگی میں کسی نہ کسی صورت میں طے کرتا ہے اور اپنی خوشی کی منزل پانے کی جدوجہد جاری رکھتا ہے۔ کچھ لوگ اسے مادی کامیابیوں سے جوڑتے ہیں، کچھ رشتوں سے، کچھ سکون سے اور کچھ دوسروں کی خدمت میں تلاش کرتے ہیں۔ مگر خوشی دراصل کسی بیرونی عنصر سے نہیں ملتی بلکہ ہمارے اندرونی رویے، سوچ اور نقطہ نظر سے جڑی ہوتی ہے۔ جو پے در پے اچھی اور مثبت باتوں اور خبروں سے پیدا ہوتی ہے۔ خوشی دراصل مایوسی اور دکھ کا متضاد ہوتی ہے۔ جو سوچنے کے منفی یا مثبت پہلوسے جنم لیتا ہے۔
ہم اکثر خوشیوں کو مستقبل کی کسی منزل سے جوڑ دیتے ہیں جیسے "جب میں کامیاب ہوجاوں گا تو خوش ہونگا" یا "جب میرے پاس زیادہ پیسہ ہوگا تو خوشی ملے گی" مگر حقیقت یہ ہے کہ خوشی ایک لمحاتی کیفیت نہیں بلکہ ایک مسلسل طرز زندگی ہے۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوشی کا پہلو نکالنا، شکر گزاری کے لیے موقعہ ڈھونڈنا، دوسروں کے اتھ مہربانی کا برتاؤ کرنے کی کوشش کرنا اور اپنے ارد گرد کی خوبصورتی کو محسوس کرنا ہی در حقیقت حقیقی خوشی ہوتی ہے۔ جو بےشک بظاہر دکھائی نہ بھی دئے دلوں کو سکون دینے کا باعث ضرور بنتی ہے۔ اگر ہم خوشیوں کی تلاش میں ہیں تو ضروری ہےکہ ہم اپنی توقعات، خواہشات اور ترجیہات پر غور کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم اپنی خوشیوں کو دوسروں کے معیار سے جانچ رہے ہیں؟ کہیں ہم دوسروں سے تقابل کرکے اپنی خوشی کو ختم تو نہیں کر رہے ہیں؟
اصل خوشی وہی ہے جو دل کے اندر سکون اور اطمینان پیدا کرئے جو بنا کسی شرط کے محسوس ہو، جو ہمیں اپنے حال میں جینے دئے۔ خوشیوں کی تلاش دراصل خود کی تلاش ہے اور جب ہم خود کو سمجھ لیتے ہیں تو خوشی خود ہمارے اندر سے پھوٹنے لگتی ہے۔ انفرادی اور معاشرتی مایوسی کو کم کرنے کے لیے ہم صحافیوں کو سنسنی خیز، ہیجان انگیز اور منفی رپورٹنگ کی بجائے تعمیری صحافت کو فروغ دینے کے لیے اچھی امثبت خبروں سامنے لانے کی ضرورت ہے جس کے لیے معاشرئے میں مثبت تبدیلی کی کہانیاں، کامیاب شخصیات کے تجربات اور امید افزا اقدامات کو نمائیاں کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ عوام میں حوصلے، ہمت اور خوشی کی لہر دوڑ سکے لیکن سچائی اور تواز ن اور غیر جانبداری کا دامن نہیں چھوڑنا۔ صرف مسائل کی نشاندہی نہیں بلکہ ان کا ممکنہ حل بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن کوئی بھی اچھی بات کرئے تو اسے نمائیاں ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ سچ کبھی خوشامد نہیں ہوتا یہ تو فرض ہوتا ہے۔ آج وقت کا تقاضا یہی ہے کہ آئیں سب مل جل کر اپنا اپنا فرض نبھائیں اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کریں۔

