Jadeed Science Ka Nafsiyati Bohran
جدید انسان کا نفسیاتی بحران

احمد جاوید صاحب فرماتے ہیں "آدمی خوش نہیں ہے یہ المیہ ہے، آدمی غمگین بھی نہیں ہے یہ عذاب ہے"۔ جون ایلیا کہتے ہیں۔۔
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
ہمارے عہد کی ایک تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں خوشی اور غم کی روایتی معنویت دھندلا چکی ہے۔ خوشی اب صرف وقتی تفریح اور مصنوعی مسکراہٹ میں سمٹ گئی ہے، جبکہ غم ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے جسے جلد از جلد اتار پھینکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم حقیقی جذباتی تجربے سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور یہی بے حسی ہمیں ایک غیر محسوس مگر گہرے عذاب میں مبتلا کر رہی ہے۔
ہماری نسل ایک ایسے نفسیاتی خلا میں قید ہو چکی ہے جہاں جذبات کی شدت معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ نہ سچی خوشی کا احساس بچا ہے، نہ ہی حقیقی غم کا درد۔ ہر جذباتی لمحہ محض ایک دکھاوا بن چکا ہے۔ کسی کی شادی میں جاتے ہیں تو زبردستی ہنسنے اور خوش نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ کسی جنازے میں شرکت کریں تو رسمی اداسی اوڑھ لیتے ہیں۔ اصل جذبات اندر کہیں دب چکے ہیں اور ہم خود بھی نہیں جانتے کہ ہمارے دل کی اصل کیفیت کیا ہے۔
یہ جذباتی زوال درحقیقت جدید طرزِ زندگی کی دین ہے، جہاں ہر چیز کی رفتار اتنی تیز ہو چکی ہے کہ انسان کے پاس اپنے جذبات کو پہچاننے اور انہیں محسوس کرنے کا وقت ہی نہیں رہا۔ سوشل میڈیا، مصنوعی خوشیوں کی دوڑ اور مادہ پرستی نے ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ہم ہر چیز کو ایک کامیابی یا ناکامی کے پیمانے پر ناپنے لگے ہیں۔ خوشی کو ہم نے کسی بڑی کامیابی یا مادی فائدے سے جوڑ دیا ہے اور غم کو کمزوری سمجھ کر اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم جذباتی بے حسی کے ایک ایسے دائرے میں قید ہو چکے ہیں جہاں زندگی کی اصل معنویت کھو گئی ہے۔
یہ کیفیت درحقیقت ایک نفسیاتی بیماری کی علامت ہے، جسے ماہرینِ نفسیات "اینیہیڈونیا" (Anhedonia) کہتے ہیں، یعنی وہ حالت جس میں انسان خوشی محسوس کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ جب انسان کے جذبات بے معنی ہو جائیں اور اسے خوشی یا غم میں کوئی فرق محسوس نہ ہو، تو یہ ایک سنگین نفسیاتی مسئلہ ہے۔ جذباتی لاتعلقی کا یہ بحران ہمیں ایک ایسے روبوٹک طرزِ زندگی کی طرف دھکیل رہا ہے جہاں ہر چیز میکانیکی ہو چکی ہے اور ہم محض رسموں اور روایات کے تحت مختلف جذباتی کیفیات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ لوگ خوشی اور غم کو زندگی کا لازمی جزو سمجھتے تھے۔ وہ خوشی میں حقیقی مسرت محسوس کرتے تھے اور غم کو ایک ارتقائی تجربہ سمجھ کر اسے قبول کرتے تھے۔ صوفیاء، فلسفی اور شعرا ہمیشہ اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ خوشی اور غم دونوں انسان کے لیے ضروری ہیں۔ جلال الدین رومی کا قول ہے: "غم نہ کرو، کیونکہ غم وہ چیز ہے جو تمہارے دل کو زیادہ کشادہ کرتی ہے اور اس میں نور بھر دیتی ہے"۔
مگر آج کے دور میں ہم نے غم کو ایک بوجھ سمجھ کر اس سے فرار کی راہ اختیار کر لی ہے اور خوشی کو صرف تفریح اور مادی کامیابی کے پیمانے سے ناپنے لگے ہیں۔ ہماری سوسائٹی میں خوشی کو ایک ایسی دوڑ بنا دیا گیا ہے جس میں ہر شخص شامل ہے، مگر کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔
ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ اگر ہمارے پاس بہتر نوکری، مہنگی گاڑی، بڑی کوٹھی، یا پرتعیش زندگی ہوگی، تو ہم خوش ہو جائیں گے۔ لیکن تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں، وہ بھی اندر سے اتنے ہی خالی ہوتے ہیں جتنے وہ لوگ جو بنیادی ضروریات سے محروم ہوتے ہیں۔ خوشی کسی بیرونی عنصر پر منحصر نہیں بلکہ یہ ایک اندرونی کیفیت ہے جو زندگی کے حقیقی معنوں کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔
ہم نے اپنی زندگی کو اتنا مشینی بنا لیا ہے کہ ہمارے پاس اپنے جذبات کو جانچنے کا وقت ہی نہیں رہا۔ سوشل میڈیا پر "لائکس" اور "کمنٹس" کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم اپنے اصل جذبات سے بے خبر ہو چکے ہیں۔ ہم مصنوعی مسکراہٹیں سجاتے ہیں، لیکن اندر سے کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے رک کر سوچیں:
کیا ہم خوشی کو صرف ایک دکھاوا بنا چکے ہیں؟ کیا ہم اپنے غم کو دبا کر خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟ کیا ہمیں واقعی معلوم ہے کہ ہمیں حقیقی خوشی کس چیز میں ملتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ خوشی اور غم دونوں انسان کی روحانی اور جذباتی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ہم خوشی کو محسوس نہیں کر سکتے تو ہمیں اپنی زندگی میں مقصدیت پیدا کرنی ہوگی اور اگر ہم غم کو قبول نہیں کر سکتے تو ہمیں اس کی معنویت پر غور کرنا ہوگا۔ مشہور ماہرِ نفسیات کارل ینگ کہتے ہیں: "آپ کا دکھ ہی وہ جگہ ہے جہاں آپ کا شعور سب سے زیادہ ترقی کرتا ہے"۔
ہمیں غم سے بھاگنے کے بجائے اسے سمجھنا ہوگا، کیونکہ یہی ہمیں زیادہ حساس، زیادہ باشعور اور زیادہ بہتر انسان بناتا ہے۔ اگر ہم غم کو کمزوری سمجھ کر اس سے نظریں چرا رہے ہیں تو ہم دراصل اپنی زندگی کے ایک اہم تجربے سے محروم ہو رہے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم خوشی کو صرف مادی کامیابی سے مشروط کر رہے ہیں تو ہم کبھی حقیقی خوشی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
یہ ایک خطرناک رجحان ہے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں جذبات مصنوعی ہو چکے ہیں، جہاں خوشی اور غم کی اصل حقیقت مسخ ہو چکی ہے اور جہاں انسان خود اپنے اندر ایک خالی خلا محسوس کرتا ہے۔ ہمیں فوری طور پر اپنی جذباتی زندگی پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ ہمیں سوشل میڈیا کی چمک دمک سے نکل کر اپنی اصل زندگی پر توجہ دینی چاہیے۔ مصنوعی خوشی کے سراب میں بھٹکنے کے بجائے ہمیں حقیقی خوشی کی تلاش کرنی ہوگی اور غم کو کمزوری کے بجائے ایک طاقت کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔
اگر ہم نے اپنے جذبات کو پہچاننے کی صلاحیت دوبارہ حاصل نہ کی تو ہمارا انجام ایک ایسے معاشرے کی شکل میں ہوگا جو بے حس، جذباتی طور پر بانجھ اور زندگی کے حقیقی حسن سے محروم ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ خوشی کیا ہے؟ غم کیا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر، ہم خود کون ہیں؟

