Acha Waqt Waqai Nikal Chuka Hai
اچھا وقت واقعی نکل چکا ہے

صدر ٹرمپ کے اقدامات اچھے ہیں یا برے، اس سے قطع نظر ہم ایک دلچسپ اور تاریخی دور سے گزر رہے ہیں۔ میں امریکا کا ذکر کررہا ہوں، باقی دنیا پر بھی جلد اثرات نمایاں ہوں گے۔ لیکن امریکا میں رہنے والے کچھ لوگ اپنی امیدوں اور کچھ لوگ اپنے خدشات کو حقیقت میں بدلتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔
آج ایک نوجوان کا انٹرویو ریڈیو پر سنا جو کیپٹل ہل پر حملے کے بعد جیل میں تھا اور ٹرمپ کے حکم نامے پر رہا ہوا۔ اسے زندگی کے دس سال واپس مل گئے۔ دوسری طرف ان لوگوں کی گفتگو سنی جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ان کی مایوسی کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
میں پاکستان تھا تو سوچتا تھا، فلاں دوست اچھے وقتوں میں باہر چلا گیا۔ اب جانا مشکل ہے۔ پھر مجھے بھی موقع ملا گیا۔ جب موقع مل جائے، وہی اچھا وقت ہوتا ہے۔ کبھی سب کچھ پاس ہوتا ہے اور ویزا نہیں ملتا۔ کبھی کچھ نہیں ہوتا اور ویزا مل جاتا ہے۔
لیکن ایسا لگتا ہے، امریکا آنے کا اچھا وقت واقعی نکل چکا ہے۔ جو آگیا اور بس گیا، وہ بس گیا۔ مستقبل میں امریکا آنا، گرین کارڈ لینا اور امریکی شہری بننا مشکل تر ہوگا۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے پاس امیگریشن خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ اکثریت اسائلم کی درخواست دیتی ہے اور ان کی اکثریت کو اسائلم مل بھی جاتا ہے۔ ٹرمپ صاحب مستقبل میں یہ دروازہ بند کرنا چاہتے ہیں۔ مستقل بند نہ بھی ہوا تو درخواستیں مسترد ہونے کی شرح ضرور بڑھے گی۔ ابھی کیسز کا فیصلہ ہونے میں دس دس، پندرہ پندرہ سال لگ جاتے ہیں۔ اس دوران لوگوں کے بچے پیدا ہوجاتے ہیں اور اس طرح بھی خاندان امریکی بن جاتے تھے۔ آئندہ کیسز بھی فٹافٹ نمٹائے جائیں گے اور بچے پیدا ہونے پر شہریت ملنے کے امکانات بھی ختم ہوسکتے ہیں۔
میں جے ون ویزے پر امریکا آیا تھا۔ یہ ویزا بہت کم لوگوں کو ملتا ہے اور فوراََ گرین کارڈ میں بدل جاتا ہے۔ گرین کارڈ کا مطلب ہے دس سال تک قیام کا اجازت نامہ۔ پانچ سال کے بعد امریکی شہریت کا حق مل جاتا ہے۔ گرین کارڈ ملنے کے بعد بیشتر ایسے حقوق مل جاتے ہیں جو امریکی شہریوں کو حاصل ہیں۔ ووٹ کا حق البتہ نہیں ہوتا اور سرکاری ملازمت کی ترجیحی فہرست میں بھی امریکی شہریوں کے بعد نمبر آتا ہے۔ گرین کارڈ مل جائے تو امریکی شہریت یقینی ہوجاتی ہے لیکن کوئی سنگین جرم میں ملوث ہو تو یہ واپس بھی لیا جاسکتا ہے۔
کل کسی اخبار میں خبر تھی کہ ٹرمپ صاحب کے آنے سے پہلے بعض علاقوں میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کے خلاف کارروائیاں شروع کردی گئی تھیں۔ ایک شخص کو راستے میں روک کر پولیس نے بیدخلی کا نوٹس دکھایا اور ملک بھیج دیا۔ اس نے گوئٹے مالا پہنچ کر بیوی کو فون کیا کہ میں ادھر آچکا ہوں۔ پڑھ کر پہلے ہنسی آئی اور پھر رونا۔ اخبار کے مطابق گوئٹے مالا کی حکومت امریکا سے واپس آنے والوں کے لیے انتظامات کررہی ہے۔ صرف اس ایک ملک کے سات لاکھ افراد امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ یہ سب واپس گئے تو اس غریب ملک کا جانے کیا حال ہوگا۔
امریکا میں اس وقت غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی تعداد سوا کروڑ ہے۔ اگر قطار بناکر بھی ان افراد کو بیدخل کیا جائے تو چار سال میں یہ ممکن نہیں۔ لیکن کیا پتا، اگلا امریکی صدر ٹرمپ صاحب سے بھی دو ہاتھ آگے ہو۔ بہرحال ٹرمپ صاحب کی صورت دیکھ کر بہت سے لوگ خوف کھارہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے خاندانوں کو جانتا ہوں جو گوئٹے مالا، ایل سلواڈور یا کولمبیا سے امریکا آئے اور خود واپس جاچکے ہیں یا جارہے ہیں۔ بے یقینی کی کیفیت میں کوئی نہیں رہنا چاہتا۔