Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Ali Ahmar
  4. Ghuroob e Shehar Ka Waqt

Ghuroob e Shehar Ka Waqt

غروب شہر کا وقت

مصنف ناول کے شروع میں ایک شہر خموشاں کا منظر بیان کرتا ہے جس میں ایک آٹھ سالہ بچے کی ٹیڑھی قبر اسے سوچنے ڈال دیتی ہے کہ اس جیومیٹری کے اوزاروں سے بنائی گئی کائنات میں یہ ٹیڑھی قبر کہاں سے آ گئی؟ مخمل میں لگا ٹاٹ کا پیوند کی مانند اس قبر نے اس کائنات کی measurements کو گہنا دیا ہے۔ اس کے بعد مصنف شہر خموشاں کی مکینوں سے ادراک کے ذریعے گپیں شپیں لگاتا ہے اور بیچ میں اپنی existence کا سوال ڈال دیتا ہے کہ میں کون ہوں کہاں سے آیا ہوں اور میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

پھر کتاب کے بالکل آخر میں مصنف ان الفاظ میں دوبارہ گویا ہوتا ہے۔

"ابتدا میں پوچھے جانے والے سوال کا جواب اب بھی میرے پاس نہیں ہے کہ میں اس بے حد وسیع کائنات میں کیا کر رہا ہوں؟ کیوں کر رہا ہوں؟ اور وہ آٹھ سالہ بچی کیوں پیدا ہوئی اور مر گئی اور اس کی ٹیڑھی قبر نے کیوں کائنات کے جمالیاتی توازن کو بگاڑ دیا"۔

ان دو اقتباسات کے درمیان ساڑھے پانچ سو صفحات میں مصنف مجھ سے کس طرح مخاطب ہوا ہے، آئیے کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی ملاحظہ فرمائیے۔

پہلے دیکھ لیتے ہیں کہ اسامہ صدیق اپنی اس کتاب کے بارے اعتراف کن الفاظ میں کرتے ہیں "میری ٹکڑا ٹکڑا یادداشتیں پڑھ کر لوگ سوچیں گے کہ میں ماضی پسند ہوں حالانکہ مجھے تو ہر زمانہ پسند ہے"۔

جناب نے یہ جو "ٹکڑا ٹکڑا یادداشتوں" کا ذکر کیا ہے نہ، آپ کی اس کتاب کے لیے اس سے موزوں اور کوئی عنوان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ کتاب آپ کی بکھری یادداشتوں کا مرقع ہے۔ جناب سخت قسم کے رومانویت پسند واقع ہوے ہیں اور ناسٹیلجیا نے آپ کو چاروں طرف سے جکڑا ہوا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک ناول ہے مگر اردو ادب کی شاید ہی کوئی صنف بچی ہو جس نے اس کتاب میں اپنا حصہ نہ ڈالا ہو۔ میرے خیال میں اس کتاب کے اندر سے درج ذیل اصناف ادب کو الگ الگ کرکے (کیونکہ کہانی سے ان کا ویسے بھی کوئی تعلق نہیں ہے) چھاپ دینا چاہیے۔

فلسفہ، خاکے، افسانے، مضامین، تاریخ جب مصنف نے فلسفہ شروع کیا تو بڑے بڑے مصنفین (بابا یحیٰ، تارڑ، عبد اللہ حسین، قرات العین حیدر) کی طرح لمبے عرصہ تک فلسفہ ہی چلتا رہا۔

جن لوگوں (کرداروں) کو مصنف نے متعارف کروایا ان میں تمام تر خوبیوں کے باوجود وہ کہانی سے نالاں ہی رہے۔

بہت سی چھوٹی چھوٹی کہانیاں مصنف نے اس ناول میں بیان کیں (جو کہ الگ الگ افسانوی طرز میں شائع کی جائیں تو اچھا مزہ کرائیں)۔

مصنف ایک وسیع المطالعہ شخص ہیں، مان لیا۔ ان کی لیاقت بھی اس کتاب میں جابجا بکھری ہوئی نظر آتی ہے یعنی سائنس، آرٹس، ادب، مقامی، بین الاقوامی، قریب قریب ہر فیلڈ کے جغادری لوگوں پر مصنف کو دسترس حاصل ہے اور تاریخ تو مصنف کا پسندیدہ مضمون لگتا ہے جس میں اندرونی، بیرونی، ماضی قریب اور بعید کی بہت سی تاریخ مصنف نے مختلف حوالوں سے قاری کے گوش گزار کی ہے۔

الغرض اس کتاب میں آپ کو یہ تمام باتیں بکھری ہوئی ملیں گی مگر "کہانی ندارد"۔ میرا خیال ہے کہ اب ادبی اصناف کے مروجہ اصولوں کو بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ کیونکہ اتنے دن اس کتاب کو دینے کے بعد بھی میں یہ سمجھنے سےقاصر ہوں کہ یہ ناول کہاں سے ہے؟

Check Also

Imran Khan Ki Rehai Ki Nayi Tehreek

By Haseeb Ahmad