Qaim Raho Hussain Ke Inkar Ki Tarah
قائم رہو حسین کے انکار کی طرح
جب بھی ضمیر و ظرف کا سودا ہو دوستوں
قائم رہو حسین کے انکار کی طرح
یہ شعر جب بھی نظر سے گزرتا ہے تو دل میں عجب قسم کا جوش و ولولہ ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے کہ وہ 61 ھجری کے محرم الحرام کا کیا عالم ہوگا جب صرف ایک ہاں بلوانے کے لیے صرف ایک بیعت لینے کے لیے خاندان رسولِ خدا ﷺ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے غرض کیا تھا بس ایک ہاں؟
جی نہیں بلکہ امام عالی مقامؓ بخوبی واقف تھے یزید کے ارادوں سے کہ اگر کو اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو اس نے طرح طرح کی چیزیں دین میں شامل کرلینی ہیں مگر قربان جائیے اس پاک خاندان پر اس طرح صبر و تحمل سے کام لیا کہ خود صبر کے آنسو نکل آئے اور 72 افراد پر مشتمل وہ قافلہ ہزاروں لاکھوں کی فوج کے آگے ڈٹ گیا اور باطل کو حق پر ترجیح نہیں دی بلکہ کربلا کے صحراؤں میں لا غالب الا اللہ کی صدائیں گونجنے لگیں کہ اے دنیا! اے فانی دنیا! اے فنا ہو جانے والے انسانوں! تم کس قدر ہی اختیار چاہو حاصل کرلو جتنی چاہو فوجی قوت پر رشکر کرلو مگر جب خدا باری تعالیٰ نے چاہا تو کچھ ںاقی نا رہے گ۔
آج بھی یوم عاشور ہے آج کے دن ایک عظیم قربانی دی گئی نا صرف اپنی جان بلکہ اپنی آل اولاد بھی نواسہ رسول نے دین الٰہی کے لیے قربان کردی آج اگر ہم تصور کریں کہ ہم 3 دن سے پیاسے ہیں اور اپنے 6 ماہ کے بچے کی نعش کو اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں یقین مانیے یہ جگر صرف امام حسین کے پاس تھا شاعر کہتے ہیں کہ
عشق میں کیا بچائیے عشق میں کیا لٹائیے
آل نبی نے لکھ دیا سارا حساب ریت پر
اگر ہم وہ تمان چیزیں اپنانے میں کامیاب ہو جائیں جن کا درس ہمیں کربلا کے واقعے سے ملتا ہے تو یقین مانیے ہماری شخصیت میں کوئی کمی باقی نا رہے گی اور ہم ایک قابل تقلید انسان بن کے ابھریں گے اور زمانہ ہماری مثالیں دے گا۔ خیر ہماری کیا اوقات کے ہم اوصافِ امام حسینؑ بیان کر سکیں یا ان کی قربانیوں کو قلم بند کر سکیں۔ سچ پوچھیں تو اہل بیت اطھار میں سے تمام شخصیات ںے عظیم قربانی دی ہے صرف اور صرف ہم یعنی اپنے نانا جان کی امت کے لیے اور اگر آج ہمیں یہ بھی نا پتہ ہو کہ واقعہ کربلا ہے۔
کیا ہمارے بچے اس بات سے نا آشنا ہوں کہ جس نبی کا وہ کلمہ پڑھتے ہیں ان کی آل نے اپنی جانے دے کر ان تک دین پہنچایا ہے اس دین کے چنار کو پروان چڑھانے کے لیے انہوں نے پانی نہیں بلکہ چون پلایا ہے تو ذرا سوچیں کیا یہ انصاف ہوا؟ نہیں بالکل نہیں ہمارا فرض بنتا ہے ان مقدس شخصیات کا ذکر خیر کرکے اپنے آپ کو دونوں جہانوں میں سرخرو کریں اور دور حاضر کے ہر یزید کے سامنے ڈٹ جائیں اور باطل کو یہ بات واضح کہہ دیں۔۔
مٹی میں مل گئے ہیں ارادے یزید کے
لہرارہا ہے آج بھی پرچم حسین کا