Yalghar, Khushiyon Ki Bahar Aur Antam Sanskar
یلغار، خوشیوں کی بہار اور انتم سنسکار
یہ ناچیز آجتک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں کوئی بھی قوم اٹھ کر ایک مرتعش اور ہیجان انگیز تحریک کے بعد اپنی حکومت کا تختہ الٹ دے تو ہم پر کیف و مستی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ہر سو شادیانے بجائے جاتے ہیں جبکہ بعض اوقات تو احساس تشکر سے مجبور ہوکر خوشی و مسرت میں ریلیاں بھی نکالی جاتی ہے سمجھ نہیں آتا کہ باہر کے ملکوں میں ہوئے غیر معمولی واقعات پر ہماری رگ مسرت کیوں پھڑک اٹھتی۔ ہے کچھ شک نہیں کہ ہم گاؤں کے وہ میراثی ہے جو کسی کی کامیابی پر تبلوں اور باجوں سمیت پہنچ جاتے ہیں اور خوب بھنگڑے ڈالتے ہیں ہم خود تو کچھ کرنے کے قابل نہیں پر دوسروں کی کامیابیوں اور انقلابات پر بغلیں بجھانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
ایران میں خمینی انقلاب آیا تو ہم نے خوشیاں منائی، افغانستان میں طالبان ملک پر قابض ہوئے تو ہم نے بھنگڑے ڈالے اور اب بنگال میں ایک خون ریز احتجاج کے بعد حکومت کا تختہ الٹا گیا تو ہم پھر نہ جانے کیوں اتنے باولے ہورہے ہیں۔ آخر ہمارا ان سے تعلق ہی کیا ہے اگر ہمیں انقلابات برپا کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو سر بہ کفن نکل کر اپنے ملک کے اس طبقاتی نظام کا تیا پانچہ ہم خود کیوں نہیں کرتے۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ایک ادھ ربڑ کی گولیوں سے ہماری ساری اکھڑ نکل جاتی ہے اور یہ بھی حیران کن بات ہے کہ بنگلہ دیش کے مشتعل ہجوم نے اس ہیجان انگیزی میں شیخ مجیب کا مجسمہ توڑ ڈالا تو ہمارے پرانے زخم بھر آئے اور ہم نے خوب اس انتہائی غیر مہذب حرکت کی پذیرائی کی۔
میری دانست میں ایک باشعور اور ذی فہم قوم کا یوں اپنے بابائے قوم کے مجسمے کی بے توقیری کرنا ایک نہایت غیر شائستہ فعل ہے کیا یہ بات حقیقت نہیں کہ پاکستان کی جابرانہ مرکزی حکومت سے بنگالیوں کو شیخ مجیب نے آزادی دلوائی۔ وہی تھے جس نے اپنی قوم کے خاطر جیل کی صعوبتیں برداشت کی جس نے مارشل لائی جبر میں بنگالیوں کے حقوق کے لئے ایک اعصاب شکن جنگ لڑی جس نے بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے کے لئے ایک بے مثل تحریک چلائی۔
لیکن آج صرف اس بنا پر کہ وہ ایک ایسی خاتون وزیراعظم کے والد ہے جس نے ملک میں آزادی گفتار و اظہار پر بے جا پابندیاں لگائی اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے سراپا احتجاج طالب علموں پر گولی چلائی لہذا نہ صرف ان کو ملک سے بھگایا بلکہ لگے ہاتھوں اس کے باپ کو بھی شریک جرم ٹھرا کر اس کے مجسمے تک کو توڑا گیا آخر حسینہ واجد کی اس جابرانہ اور آمرانہ طرز حکومت میں اس کے باپ کا کیا قصور تھا کیا وہ خواب میں حسینہ واجد کو یہ طرزِ عمل اختیار کرنے پر مجبور کررہے تھے؟
رہ گئی یہ بات کہ ہم کیوں اتنے پُرمسرت بے چینی میں مبتلا ہوگئے تو ہمیں تو روز اول سے ایک غلط مبنی بر جھوٹ اور ملاوٹ زدہ تاریخ پڑھائی گئی کہ شیخ مجیب پاکستان کے وجود سے متنفر ایک ایسا انسان تھا جس نے ہندووں کے آشیر باد سے ملک توڑنے کی سازش کی۔ اگرتلہ میں انڈین خفیہ ایجنسیوں سے ملاقات کرکے بنگلہ دیش بنانے کی منصوبہ بندی کی بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کی ایک مثالی اور عوامی فلاح و بہبود میں ہر دم مستعد ایک عظیم حکومت کے خلاف نفرت کا بیج بویا۔ لوگوں کو عظیم پاک فوج کے خلاف اکسایا اور آخرکار اپنی ان مذموم مقصد کے حصول کے لئے انڈین ایجنٹوں کے ساتھ ملکر اپنی مسلح تنظیم مکتی باہنی کے ذریعے پاک فوج کا بے دریغ قتل عام کیا اور یوں ان ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں مملکت خداد دولخت ہوگیا۔ اب ظاہر ہے اس تاریخی پس منظر سے آلودہ اذہان کے مالک ہمارے لوگوں کا شیخ مجیب کے مجسمے کی بے حرمتی پر خوش ہونا تو بنتا ہے۔
مگر ہم تو ٹھرے ایک نمبر کے اناڑی ہمیں تو ٹک ٹاک اور اس جیسے دوسرے خام مشاغل سے فرصت ہوں تو تب ہم اصل تاریخ کی طرف مراجعت کریں کہ شیخ مجیب تو وہ تھے جس نے سائیکل پر سینکڑوں کلو میٹر کا سفر کرکے لوگوں کو حصول پاکستان پر آمادہ کرنے کی کوشش کی یہ تو وہ انسان تھے جس نے تحریک پاکستان کے خاطر اپنی تعلیم تک اُدھوری چھوڑ دی اور اپنی تمام تر توانائیاں قیام پاکستان کے لئے وقف کردی جو حصول پاکستان کے لئے خلوص نیت سے برسرپیکار رہے اور جو تعمیر پاکستان کا ایک جذبہء دیرینہ رکھتے تھے۔
اس شخص کو آزادی کے بعد سنگھاسن اقتدار پر براجمان مفاد پرستوں اور نظریات کے پجاریوں نے حاشیوں میں دھکیلا نہ صرف اس کے ساتھ بلکہ اس کی پوری قوم کے ساتھ وہ تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا کہ جو ایک سرپھرا مالک اپنے زرخرید غلام کے ساتھ بھی اختیار نہ کرے۔ پوری بنگال قوم کو اپنی نام نہاد پاکستانی قومیت پر ایک بد نما داغ سمجھا سب سے پہلے ان کی زبان جو اس وقت کے پاکستان کی اکثریت کی زبان تھی پر اردو کو فوقیت دی گئی جب بنگالیوں نے احتجاج کرنا چاہا تو ان پر سیدھی گولیاں چلائی گئی۔
اس کے بعد وہاں کے قائد اعظم کے رفقاء دیرینہ حسین شہید سہروری اے کے فضل حق اور شیخ مجیب کی سرکردگی میں جگتو فرنٹ نامی الائنس کے حکومت کو برطرف کیا گیا پھر جب ایک طرم خان نے جمہوریت پر شب خون مارا تو تمام زیادتیوں کے باوصف شیخ مجیب نے قائد کی بہن کا ساتھ دیا جس کی پاداش میں ان پر اگرتلہ سازش کیس بنوا کر پابند سلاسل کیا گیا۔ پھر بھی وہ متحدہ پاکستان میں اپنے حقوق کی جنگ لڑتے رہے ملک توڑنے کی بات کبھی نہ کی مگر سن ستر کے الیکشن میں اس نے بھاری اکثریت حاصل کی اور حکومت کو ازروئے دستور ان کو حوالہ کرنے کے بجائے ان پر آپریشن شروع کیا گیا اور ایک رات میں محتاط اندازے کے مطابق تیس ہزار کے قریب بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اس پیہم ناروا سلوک کے بعد بھی کیا آپ کو ان سے حب الوطنی کی امید تھی؟ جو ریاست ان کی حفاظت کے بجائے ان کو حرف مکرر کی طرح صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوں جو بنگال۔ قوم کو اپنے وجود کا ایک کینسر ذدہ پھوڑا سمجھ کر اس کو اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہوں اس ریاست سے آخر وہ کیونکر وفا داری کا دم بھرتے لہذا انہوں نے وہی کیا جو ایک با وقار قوم کو کرنا چاہئے لہذا پہلے ذرا تاریخ کی روشنی میں کھڑے ہوکر اپنا قبلہ درست کرے پھر بیشک ناچے گائے اور خوشیاں منائے کیونکہ سنجیدہ مزاجی اور فہم و ادراک کا تو ہم سے گزر بھی نہیں ہوا ہم یوں ہی دوسروں کی کرنی پر ناچتے رہینگے اور گاتے رہینگے۔