Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (9)
واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (9)
جنگ جمل کا خونریز معرکہ جو آلِ امیہ کے ایک شر انگیز شخص مروان بن حکم اور اس کے گروہ کی شرانگیزیوں کی وجہ سے برپا ہوا تھا اپنے اس الم انگیز اختتام پر منتج ہوا کہ سیدنا زبیر اور سیدنا طلحہ جیسے بلند قامت شخصیات بے دردی سے قتل کیے گئے اور سیدنا قیس بن حازم کا قوی سند کے ساتھ ایک قول حاکم نے نقل کیا ہے کہ اس نے مروان کو سیدنا طلحہ پر تیر چلاتے دیکھا جناب جس سے گھائل ہوئے اور پھر اسی زخم سے انتقال فرما گئے یاد رہے کہ مروان سیدنا عائشہ کی طرف سے حضرت علی کے خلاف لڑنے آیا تھا مگر اپنے ہی لشکرکے ایک جلیل القدر صحابی کو شہید کردیا کہ ارادہ اختلال و اختلاف کو جلا دینا تھا۔
جب حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی بعد از معرکہء جمل ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوئے اور ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں فریقین کے ہزار ہا آدمی کام آئے اور جنگ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئی تو اس بابت انجنیئر صاحب حضرت علی ہی کو بربنائے حق سمجھتے اور ان کے مخالف فریق کو باغی اور مبنی بر باطل گروہ سمجھتے ہیں جس کے لئے وہ بخاری و مسلم کی ایک متفقہ روایت سے استدلال کرتے ہیں جو درجہ ذیل ہے۔
سیدنا عکرمہ کا بیان ہے کہ ابن عباسؓ نے ان سے اور (اپنے صاحبزادے) علی بن عبداللہ سے فرمایا تم دونوں ابوسعید خدریؓ کی خدمت میں جاؤ اور ان سے احادیث نبوی سنو۔ چنانچہ ہم حاضر ہوئے، اس وقت ابوسعیدؓ اپنے (رضاعی) بھائی کے ساتھ باغ میں تھے اور باغ کو پانی دے رہے تھے، جب آپ نے ہمیں دیکھا تو (ہمارے پاس) تشریف لائے اور (چادر اوڑھ کر) گوٹ مار کر بیٹھ گئے، اس کے بعد بیان فرمایا ہم مسجد نبوی کی اینٹیں (ہجرت نبوی کے بعد تعمیر مسجد کیلئے) ایک ایک کرکے ڈھو رہے تھے لیکن عمارؓ دو دو اینٹیں لا رہے تھے، اتنے میں نبی کریم ﷺ ادھر سے گزرے اور ان کے سر سے غبار کو صاف کیا پھر فرمایا افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی، یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کی) طرف دعوت دے رہا ہوگا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔ (نمبر-2812)
مرزا صاحب اپنے تحقیقی مقالے میں مسند احمد کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کرتے ہیں سیدنا محمد بن عمر تابعی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمار قتل ہوئے تو سیدنا عمرو بن حزم حضرت عمرو بن عاص کے پاس آئے اور یہ خبر سنائی عمرو بن العاص گھبرائے ہوئے امیر معاویہ کے پاس پہنچے اور سیدنا عمار کی شہادت کی خبر امیر شام کو دی انہوں نے کہا اگر عمار قتل ہوئے تو کیا ہوا؟ عمرو بن العاص نے جواب دیا میں نے خود رسول ﷺ سے سنا کہ عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا اس پر امیر معاویہ نے کہا تم اپنے ہی پیشاب میں پھسل جاؤ ان کو کیا ہم نے قتل کیا ہے؟ ان کے قاتل تو حضرت علی اور ان کے ساتھی ہے نہ وہ اسے میدان میں لاتے اور نہ وہ ہمارے نیزوں کا نشانہ بنتے۔
ایک آدھ روایات کو نقل کرنے کے بعد انجنئیر صاحب امام بدرالدین عینی کا ایک قول نقل کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ کے حضرت علی کے خلاف اقدام کو ہر گز اجتہادی غلطی پر محمول نہیں کیا جاسکتا کہ اسے حضور اکرم ﷺ کی یہ حدیث نہیں پہنچی تھی کہ ابن سمیہ (حضرت عمار) کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور ان کو امیر معاویہ کے ساتھیوں نے شہید کر ڈالا لہذا اس پر بس نہیں کہ خدا اس کو برابر چھوڑدے چہ جائیکہ اسے ایک اجر بھی عطا ہوں۔
ان روایات کی بنیاد پر انجنئیر صاحب کا مشاجرات علی و معاویہ کے معاملے میں دو ٹوک موقف ہے کہ امیر معاویہ کا حضرت علی کے خلاف قصاص عثمان کے قضیے کی بنیاد پر اقدام قانونی شرعی اور اخلاقی لحاظ سے ایک ناجائز غیر شرعی غیر اخلاقی اور غیر قانونی طرزِ عمل تھا جس نے امت کے اجتماعی نظم کو اسلام کے لافانی اصول منہج خلافت سے ہٹاکر قیصر و کسریٰ میں مروجہ موروثیت کی راہ پر ڈال دیا اور اس کے بعد جب مملکت اسلامیہ حضرت علی اور معاویہ کے زیر نگیں منقسم ہوگئی تو حضرت امیر معاویہ کے جنگ صفین کے بعد کا طرز عمل اس بات پر قطعی حجت ہے کہ ان کا مطمع نظر اپنے عم زاد کا قصاص نہیں بلکہ اقتدار کا حصول تھا کیونکہ انہوں نے جنگ کے بعد ایک عظیم شخصیت یعنی حضرت علی پر مسجد کے منبروں سے باقاعدہ سب و شتم یعنی لعنت بھیجنے جیسے قبیح عمل کا آغاز کیا جو تاریخ کے مستند ترین روایات سے اس تابناکی کے ساتھ ثابت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں اپنے تحقیقی مقالے میں کئی روایات انجینئر صاحب پیش کرتے ہیں چند درج ذیل ہے۔
بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ نے حضرت سعدؓ کو حکم دیا، کہا: آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب (حضرت علی بن ابی طالب ؓ) کو برا کہیں۔ انھوں نے جواب دیا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ان (حضرت علی ؓ) سے کہی تھیں، میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا۔ ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لئے ہو تو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہوگی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا، آپ ان سے (اس وقت) کہہ رہے تھے جب آپ ایک جنگ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر جا رہے تھے اور علیؓ نے ان سے کہا تھا: اللہ کے رسول! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: "تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جو حضرت ہارونؑ کا موسیٰؑ کے ساتھ تھا، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے"۔
اسی طرح خیبر کے دن میں نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا: "اب میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں"۔ کہا: پھر ہم نے اس بات (کا مصداق جاننے) کے لئے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر (ہر طرف) دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "علی کو میرے پاس بلاؤ"۔ انھیں شدید آشوب چشم کی حالت میں لایا گیا۔ آپ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اور جھنڈا انھیں عطا فرما دیا۔ اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا اور جب یہ آیت اتری: (تو آپ کہہ دیں: آؤ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں"۔ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، اور حضرت حسینؓ کو بلایا اور فرمایا: "اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں"۔ (نمبر-6220 مسلم)
اسی طرح ایک دوسری روایت میں یوں درج ہے کہ سیدنا عبداللہ بن ظالم بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہ کوفہ آئے تو مغیرہ بن شعبہ نے کچھ خطباء مقرر کیے جو بشمول مغیرہ بن شعبہ کے حضرت علی پر زبان درازی کرتے تھے جس پر حضرت سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اس ظالم شخص کودیکھتے ہوں جو ایک جنتی شخص پر لعنت کرتا ہے۔ (سُنن نسائی الکبری نمبر- 8219-8208)
اس طرز عمل پر انجنئیر صاحب حضرت امیر معاویہ پر سخت تنقید کرتے ہیں اور اس کے بعد حضرت حسن کے ساتھ طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرکے اپنے بیٹے یزید کو جانشین بنانے کا فعل امیر معاویہ کے پہلے سے جاری منفی کردار میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے جس کی تفصیل اگلے بلاگ میں۔۔
جاری ہے۔۔