Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (8)
واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (8)
صحیح مسلم حدیث نمبر 4457 کے مطابق ولید بن عقبہ گورنر کوفہ کو حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا گیا دو گواہان نے شراب نوشی کی گواہی دی اور یوں حضرت علی کے کہنے پر عبداللہ بن جعفر نے اسے کوڑے لگوائے جبکہ حضرت حسن نے یہ کہہ کر کوڑے مارنے سے انکار کردیا کہ جنہوں نے اس شخص کے اقتدار کا مزہ لیا اب وہ اس کی تلخی بھی برداشت کرلے۔
انجینئرز صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت حسن کو ولید بن عقبہ اور ان جیسے گورنروں کی تقرری پر سخت تحفظات تھے۔ یہی وہ پالیسی تھی جسکی وجہ سے آس پاس کے لوگ نہایت مشتعل ہوئے اور انہوں نے بلوہ کرکے حضرت عثمان کو بے دردی سے شہید کرڈالا۔
کیا حضرت عثمان خلیفہ برحق تھے؟ انجنیئر صاحب کا فرمانا ہے کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اپنے پاکیزہ کردار بلند محاسن اخلاق اور حضور ﷺ سے گہری وابستگی کی وجہ سے آپ بہترین شخصیت کے مالک اور ہر لحاظ سے اشخاص مقدسہ کے سرخیل تھے۔
جس کی تائید میں انجنیئر صاحب بخاری و مسلم کی حدیث نمبر 7046 اور 5928 لائے ہیں جس کے مطابق حضور ﷺ ایک باغ میں تشریف فرما تھے کہ یکے بعد دیگرے تین اشخاص نے آنے کی اجازت چاہی اور تینوں کے بارے میں ابو موسیٰ اشعری کو حضور ﷺ نے جنت کی نوید سنائی یہ تین حضرات حضرت ابوبکر وعمر وعثمان تھے۔ اسی طرح جامع ترمذی کی راویت نمبر 3704 میں حضور ﷺ نے ایک شخص کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ دور فتن میں ہدایت اور راہ راست پر ہوگا سیدنا مرہ بن کعب نے دیکھا تو وہ حضرت عثمان تھے۔
انہی احادیث کی بنیاد پر انجنئیر صاحب حضرت عثمان کو خلیفہ برحق اور ان کی شہادت کو خلافت پر ایک کاری ضرب سمجھتے ہیں۔ انجنیئر صاحب کا فرمانا ہے کہ بنو امیہ کے اوباش گورنروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے جب حضرت عثمان جیسی ہستی کو شہید کردیا گیا اور جب ان کی شہادت کے بعد حضرت امیر معاویہ قصاص کا دعویٰ لیکر اٹھے اور اس نے حضرت علی کی بیعت لینے سے انکار کیا تو یہ ہر لحاظ سے ایک نہایت غلط باغیانہ اور مبنی بر تغلب رویہ تھا جس کے پیچھے اصل محرک امیر معاویہ کی پورے بلادِ اسلامیہ پر اقتدار کی خواہش تھی۔
اس پر تفصیلی بحث سے پہلے ہم حضرت عائشہ کی حضرت علی کے خلاف اقدام کے بارے میں انجنیئر صاحب کی رائے کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ کو جب حضرت عثمان کی مظلومانہ شہادت کا علم ہوا تو آپ سلام اللہ علیہا نے نہ صرف حضرت علی کی خلافت کو ماننے سے انکار کیا بلکہ حضرت طلحہ اور زبیر جیسے جلیل القدر اصحاب کے ساتھ قصاصِ عثمان کے غرض سے ایک لشکر جرار کے ساتھ حضرت علی کے خلاف مکہ سے نکلی حضرت علی بھی لشکر لیے سامنے آئے اور ایک خونریز جنگ اور فریقین کے بے شمار اصحاب کی ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد حضرت عائشہ کا لشکر پسپا ہوگیا اور حضرت عائشہ کو تکریم و تعظیم کے ساتھ مدینے روانہ کیا گیا۔
انجنیئر صاحب حضرت عائشہ کے اس اقدام کو اجتہادی غلطی پر محمول کرتے ہیں مگر حتمی رائے کے طور پر فرماتے ہیں کہ اس میں حضرت علی ہی حق پر تھے اور حضرت عائشہ کا اقدام ناسمجھی میں ایک باغیانہ روش تھا۔ اپنے اس دعوے کو احق ثابت کرنے کے لئے انجنئیر صاحب مسند احمد کی ایک حدیث بیان کرتے ہیں۔ سیدنا قیس تابعی کا بیان ہے کہ جب حضرت عائشہ سلام اللہ علیہا بہمراہ لشکر بنو عامر کے گھاٹ پر پہنچیں تو وہاں کتے بھونکنے لگے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ حوآب کا چشمہ ہے۔ آپؓ نے فرمایا پھر تو میں ضرور واپس جاؤں گی اس پر سیدنا زبیر نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیں ضرور آگے بڑھنا چاہیے کہ مسلمانوں میں اتفاق کی کوئی راہ نکل سکے۔۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ مجھ سے حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی ایک کی حالت اس وقت کیسی ہوگی جب کہ اُس پر مقام حوآب کے کتے بھونکیں گے۔ (نمبر 24299 جلد-6 صفحہ -52) اسی طرح مجمع الزوائد کی حدیث میں سیدنا عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے فرمایا کہ کاش مجھے معلوم ہوجا تا کہ تم میں سے میری کون سی بیوی ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوگی کہ جس کے چہرے پر گھنے بال ہونگے حوآب کے کتے نکلیں گے اور اس کے دائیں بائیں بہت زیادہ قتل وغارت ہوگی اور پھر وہ بال بال بچ جائے گی۔ (نمبر12026 جلد- 7 صفحہ- 163)
مجمع الزوائد اور مسند احمد کی ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت ابو رافع کا بیان ہے کہ حضور ﷺ نے سیدنا علی کو فرمایا کہ عنقریب عائشہ اور تمہارے بیچ ایک معاملہ ہوگا۔ حضرت علی نے جواب دیا پھر تو میں بڑا بدبخت ہوں گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ جب ایسا ہوگا تو تم عائشہ کو اسکی پناہ گاہ تک پہنچا دینا۔
متذکرہ بالا صحیح الاسناد روایت کے بناء پر انجنیئر صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ کا حضرت علی کے خلاف اقدام لائق تحسین نہ تھا اور اس اقدام پر حضرت عائشہ صدیقہ خود بھی مغموم رہتی اور بارگاہ ایزدی میں بخشش کی دعائیں مانگتیں بطور دلیل مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت ملاحظہ ہو۔ سیدنا قیس تابعی کا بیان ہے کہ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا آخری وقت قریب آیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے ازواج مطہرات کے ساتھ (بقیع غرقد) میں دفن کرنا (یعنی آقائے نامدار کہ مرقد پُر نور کے ساتھ دفن نہ کرنا) کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ایک نیا کام سرزد ہوگیا ہے۔
انجنیئر صاحب یہاں شیخ البانی کا ایک قول نقل کرتے ہیں کہ اس نئے کام سے مراد حضرت عائشہ کی جنگ جمل میں شرکت کرنا تھی۔ جس پر آپ سلام اللہ علیہا تا عمر نادم رہی۔۔
جاری ہے۔۔