Waqea e Karbala, Afkaar e Ghamdi Aur Engineer Ali Mirza Ka Taqabli Jaiza (11)
واقعہ کربلا، افکارِ غامدی اور انجنیئر علی مرزا کا تقابلی جائزہ (11)
اپنے تحقیقی مقالے کے آخر میں استنادی حیثیت کے حامل روایات کی روشنی میں انجنیئر صاحب بنو امیہ کی حکومت کے سیاہ کاریوں اور بد معاشیوں کا ذکر کرتے ہیں اور اس باب میں حضور ﷺکی بنو امیہ کے حوالے سے پیشن گوئیوں پر مشتمل ابو ھریرہ سے مروی کئی روایات نقل کرتے ہیں جن میں چند قارئین کے گوش گزار کرتا ہوں۔۔
میں ابوھریرہؓ کے پاس مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺ کی مسجد میں بیٹھا تھا اور ہمارے ساتھ مروان بھی تھا۔ ابوھریرہؓ نے کہا کہ میں نے صادق و مصدوق سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ میری امت کی تباہی قریش کے چند چھوکروں کے ہاتھ سے ہوگی۔ مروان نے اس پر کہا ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ابوھریرہؓ نے کہا کہ اگر میں ان کے خاندان کے نام لے کر بتلانا چاہوں تو بتلا سکتا ہوں۔ پھر جب بنی مروان شام کی حکومت پر قابض ہو گئے تو میں اپنے دادا کے ساتھ ان کی طرف جاتا تھا۔ جب وہاں انہوں نے نوجوان لڑکوں کو دیکھا تو کہا کہ شاید یہ انہی میں سے ہوں۔ ہم نے کہا کہ آپ کو زیادہ علم ہے۔ (نمبر - 7058)
صحیح مسلم کی یوں بیان ہوا ہےکہ ابواسامہ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے ابوتیاح سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے ابوزرعہ سے سنا، انھوں نے حضرت ابوھریرہؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "میری امت کو قریش کا یہ قبیلہ ہلاک کرے گا"۔ انھوں (صحابہ) نے عرض کی: پھر آپ ہمیں کیا (کرنے کا) حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: " کاش! لوگ ان سے الگ ہو جائیں"۔
انجنیئر صاحب کا اس بات پر اصرار ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے اس حدیث کا مصداق بنو امیہ کے سوا کوئی اور نہیں کہ انہوں نے خلافت کا بوریا بستر گول کرکے مورثیت کی بنیاد رکھ کر اپنے لونڈوں کو حکومت کی کلیدی ذمہ داریوں پر مامور کرکے مملکت السلامیہ کا ستیاناس کردیا بطور دلیل ایک اور روایت ملاحظہ ہوں۔
سیدنا ابوھریرہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول ﷺ سے سنا کہ 70 کی دہائی کے آغاز اور چھوکروں کی حکمرانی سے اللہ کی پناہ مانگا کروں۔ (مسند احمد - 8302 جلد 2 صفحہ 326)
مسند ابو یعلیٰ کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابوھریرہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ گویا حکم کے بیٹے (مروان اور آل۔ مروان)آپ کے منبر پر اچھل کر چڑھتے اور اُترتے ہیں۔ آپؑ سخت طیش میں آگئے اور فرمایا۔ میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ حکم (حکم مروان کے والد اور حضر عثمان کے چچا تھے جسے حضور ﷺ نے مدنیہ بدر کیا تھا)کے بیٹے بندروں کی طرح میرے منبر پر اُچھل کود کررہے ہیں۔۔ بقول ابو ھریرہ اس کے بعد تادم مرگ حضور ﷺ کو کبھی مطمئن اور ہنستا ہوا نہیں دیکھا گیا (نمبر 6461)
اسی طرح جب حضرت حسین کی مظلومانہ شہادت کے ردعمل میں اہل مدینہ نے بیعت توڑا تو یزید کے حکم پر بدنام زمانہ مسلم بن عقبہ نے بغاوت کی سرکوبی کے لئے مدینے پر دھاوا بولا اور یزید نے تین دن تک اپنی فوج کے لئے شہر نبوی کو مباح ٹھرا دیا اور اصحاب کرام کی زوجین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے ساتھ ساتھ مسجد نبوی میں منبر رسول کے ساتھ اپنے گھوڑے باندھے جس کے بعد ہزاروں ازواج و دخترانِ صحابہ حاملہ ہوئی یہی وجہ ہے کہ جب امام احمد سے اپنے بیٹے نے یزید کے بابت پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ وہی جس نے حرم النبی میں وہ کرتوت کیے جو اس نے کیے اس سے حدیث ہرگز مت لوں۔
اس پر مستزاد عبدللہ ابن زبیر کی بغاوت کو کچلنے کے غرض سے خانہ خدا پر اگ کے پتھر برسائے جس سے غلاف کعبہ جل کر خاکستر ہوگیا۔۔
اس کے علاوہ دور معاویہ میں حجر بن عدی کا قتل دور یزید میں حسین ابن علی کی مظلومانہ شہادت اور آپ کے سر مبارک کو بطور نمائش عبیداللہ ابن زیاد کے سامنے لانا اور ابن مرجانہ کا آپ کے ہونٹ مبارک پر چھڑی سے ضرب لگانا اور یزید کا اس بد بخت کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنا خانۂ خدا پر آگ برسانا اور دخترانِ مدینہ اور حرم نبوی کی انتہائی بے حرمتی کرنا یہ تمام کرتوت مسلم کی صحیح ترین روایت کی بنیاد پر یزید پر لعنت کے لئے سند جواز فراہم کرتی ہے کہ جس میں اہل مدینہ کو خوف میں مبتلا کرنے والوں پر حضور ﷺ نے لعنت فرماکر جنہم کی وعید سنائی ہے۔۔
ایک اور روایت جو یزید کے فضیلت کے باب میں اکثر پیش کی جاتی ہے کہ حضور ﷺ نے شہر قیصر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرنے والے پہلے لشکر کو مغفرت کی نوید سنائی ہے اور کہا جاتا ہے کہ پہلا لشکر یزید کی سرکردگی میں شہر قیصر پر حملہ آور ہوا تھا لہذا اس حدیث کے مصداق یزید بن معاویہ ہے مگر ابی داؤد کی روایت کے مطابق ابو عمران تابعی کا بیان ہے کہ ہم قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لئے روم پہنچے تو ہمارے امیر عبدالرحمان بن خالد بن ولید تھے وہاں ابو ایوب انصاری نے ہمیں ایک آیت کی تفسیر سمجھائی (نمبر 2512) اور یہ معلوم ہے کہ ابو ایوب انصاری جس آخری لشکر میں جہاد کے لئے روم جاکر شہید ہوئے تھے اس کے امیر یزید بن معاویہ تھے لہذا پہلا لشکر یزید کی سربراہی میں ہرگز حملہ آور نہیں ہوا تھا۔
یہاں ہم اس طویل بحث کا اختتام کرتے ہیں احقر نے دو جلیل القدر اصحاب علم کے آراء اپنی بساط کے مطابق قارئین کے گوش گزار کردیے اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ معروضی حالات سیاسی حرکیات سماجی تشکیلات اور زمینی حقائق کی روشنی میں قطعی الدلالہ تاریخی نصوص سے ثابت شدہ واقعات کی بنیاد پر جاوید احمد غامدی کی رائے قرین انصاف و عقل ہے یا اخبارِ احاد اور دوسرے درجے کے تاریخی روایات کی بنیاد پر متشکل ہوئی انجنیئر علی مرزا کی رائے صائب و مبنی بر حق ہے۔۔
یاد رہے کہ یہ صرف ان دو اصحاب کے فکر کا بیان نہیں بلکہ انہیں دو افکار میں پوری امت کا واقعہ کربلا اور اس کے پس منظر کے باب میں تمام مکاتب فکرکے نکتہ ہائے نظر کا احاطہ کیا گیا ہے میں نے پہلے بھی شاید اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ کربلا کے باب میں ان دو اصحاب کے نکتہ ہائے نظر میں میں پوری امت کا فکری نچوڑ موجود ہے لہذا اب خود فیصلہ کیجئے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔۔
جہاں تک تعلق ہے اس احقر کی رائے کا تو خوفِ طوالت کے سبب بالاختصار عرض یہ ہے کہ امیر معاویہ کا حضرت علی کے خلاف شمشیر بکف نکلنا اور یزید کو ولی عہد مقرر کرنا اس حد تک میں جاوید احمد غامدی کے ساتھ کچھ جُزوی اختلاف کے ساتھ من حیث المجموع متفق ہوں مگر سریر آئے سلطنت پر متمکن ہونے کے بعد یزید بن معاویہ کے طرز عمل نے میری دانست میں یہ ثابت کردیا کہ امیر معاویہ کا یزید کی ولی عہدی کا فیصلہ غلط تھا یزید بن معاویہ کے کرتوتوں کا ذکر جو ان سلسلہ ہائے تحاریر میں ہوچکا اس کی کوئی توجیہ ممکن ہی نہیں کیا یہ وہ شخص نہیں جس نے بادِ صرصر بن کر گلستان نبوی کے حسین ترین پھولوں کو باد نسیم میں کھلنے سے پہلے ہی مرجھا دیا جس کے خبیث گورنر نے آل محمد کے ان معصوم کلیوں کو بھی مسل ڈالا جن کے کھلنے کے دن بھی نہیں آئے تھے۔
کیا یہ وہ نہیں جس کی بدبخت فوج نے آل علی کے شہزادوں کے مردہ جسموں کو گھوڑوں تلے روند ڈالا وہ جس کی سواری سرکار کائنات کے کندھے ہوا کرتے تھے وہ جو حضور کے پیٹھ پر بیٹھ جاتا تو آپ با جماعت نماز تک میں سجدے طویل کرتے کہ میرے بچوں کو کھیلنے کا موقع مل جائے وہ جسے آقائے نامدار نے اپنے باغ کا پھول اپنے قلب کا سکون اور جنتی نوجوانوں کا سردار کہا اس عظیم المرتبت شخص اور اس کے پورے اہل و عیال کو ذبح کرنے والے یزید اور اس کے خبیث گورنر کی میں کیا صفائی پیش کروں کیا اپنے نبی کے خاندان کے قاتلوں کی صفائی پیش کروں گا ہرگز نہیں میرا عقیدہ تو امام شافعی کے اس شعر کا پرتو ہے۔۔
ان کان رفضا حب ال محمد
فلیشھد الثقالان انی رافضی
ترجمہ: اگر آل محمد سے محبت رافضیت ہے تو انس و جن گواہ رہے کہ میں رافضی ہوں۔۔ وما علینا الاالبلاغ