Khwaja Siraon Ki Ghunda Gardi Aur Radd e Amal Ki Nafsiyat
خواجہ سراؤں کی غنڈہ گردی اور ردعمل کی نفسیات
انتہا پسند رویے ردعمل کی نفسیات کا پرتو اور منطقی نتیجہ ہے اس بابت احقر کئی کالمز میں اپنی معروضات بیان کرچکا ہے کہ کسی بھی شخص یا طبقے کے ساتھ ناروا سلوک اس مجروح طبقے یا فرد میں ردعمل کے نفسیات پروان چڑھاتا ہے اور جب مظلوم و مقہور طبقہ زمانے کی گردشوں اور ازروئے قدرت طے شدہ وقت کے ریاضیاتی تغیر کے نتیجے میں صاحب اختیار ہو جاتا ہے تو وہ بھی اسی انتہا پر ہوتا ہے جس انتہا پر وہ لوگ تھے جو ان پر مسلط تھے اور پھر وہی مظلوم طبقہ بربریت کا اندوہناک پہناوا اوڑھ کر سابقہ ظالم طبقے پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتا ہے یہی تاریخ کا سبق اور صدیوں پر محیط انسانی سماج کے عمیق مطالعے کا حاصل ہے۔
ہمارے ہاں چونکہ سماج میں طبقاتی تقسیم نہایت گہری ہے، رنگ نسل زبان اور مذہب کے ساتھ ساتھ جنسی تفریق بھی سماجی تشکیلات میں افتراق کا ایک طاقتور محرک ہے۔ خواتین کے ساتھ جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے کسی ذی فہم شخص کو انکار نہیں مگر ہمارے ہاں وہ لوگ جو اپنی جسمانی خدو خال میں قدرتی طور پر نہ مردوں سے مماثل ہے اور نہ عورتوں سے ان کو کوئی مطابقت یعنی تیسری قسم کی جنس جسے عرف عام میں خنثیٰ مشکل خواجہ سرا یا ہیجڑہ کہا جاتا ہے، ان کے ساتھ اس سماج کا رویہ نہایت تحقیر آمیز اور تضحیک آمیز ہے۔
یہ طبقہ اپنی مخصوص چال چلن کی وجہ سے ہمیشہ ہمارے حسِ مذاق کی تسکین کا ذریعہ رہا ہے ان پر بازاری جملے کسنا ان کا مذاق اڑانا سر راہ ان کو چھیڑنا اور ان کے ساتھ انتہائی اخلاق باختہ اور غیر مہذب طرز تکلم اپنانا اس سماج کا مشغلہ بن چکا ہے۔ سماج کے یہ مسلسل تذلیل آمیز رویے اس طبقے کے اذہان میں ردعمل اور انتقام کے نفسیات کی تخم ریزی کا باعث بنے جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلی اور اب اس طبقے کو جہاں موقع ملتا ہے اپنی پوری قوت کے ساتھ اپنے خوئے انتقام کی تسکین کے لئے تمام حدوں کو پھلانگ کر یہ طبقہ کچھ بھی کر گزرتا ہے۔
چونکہ یہ معلوم ہے کہ اب دنیا مواصلات کی برق رفتار ترقی کی بدولت ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے مظلوم طبقات کی داد رسی کے نام پر نام نہاد مہذب دنیا اس طبقے کے ساتھ کھڑا ہے جو ان کے لئے آواز اٹھاتی ہے اور جب یہ لوگ اپنے حقوق کے نام پر کسی کے لئے آزار بنے آئین و قانون کی دھجیاں تک اڑا دے حتی کہ کسی کو موت کے گھاٹ اتار دے تب بھی ان کے خلاف اقدام پر پوری دنیا کے نام نہاد ایکٹوسٹ اور سماجی کارکن ایک ہنگام برپا کردیتے ہیں۔ لہذا ریاست بھی ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہے اور یہی خوف اس طبقے کی جرات میں غیر معمولی اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے ان لوگوں نے پنجاب میں پولیس تھانے پر دھاوا بولا، وہاں توڑ پھوڑ کی سپاہیوں کو زدو کوب کیا مگر کسی کو جرات نہ ہوئی کہ اس کھلم کھلا غنڈا گردی پر حرف ملامت تک لبوں پر لائے۔ ریاست بھی اب ان کے سامنے بے بس ہوچکی ہے۔ دوسری طرف سماج میں فحاشی اور بے راہ روی کے فروغ میں بھی یہ لوگ پیش پیش ہیں، بدلے کی نفسیات نے ان کو اندھا کردیا ہے نوخیز جوانوں کے اخلاقی بگاڑ میں یہ ہر دم تازہ دم اور ہمہ تن گوش ہے۔ ان کے کوٹھوں پر اس مذہبی معاشرے میں جنسی بے رواہ روی کی وہ شرمناک حرکتیں ہوتی ہے کہ شیطان بھی جسے دیکھ کر شرما جائے مگر کسی کو مجال نہیں کہ وہ ان فحاشی کے اڈوں پر تبصرہ تک کر سکیں۔
ان کی یہ منفی سرگرمیاں ایک عرصے سے جاری ہیں مگر اب تو آخیر ہی ہوگئی کہ اب تو یہ دہشت گردی پر اتر آئے ہیں۔ عام لوگ تو ایک طرف قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اب ان کی غنڈہ گردی سے محفوظ نہیں۔ اب کچھ دن پہلے کا واقعہ ملاحظہ کیجئے مردان میں تھانہ ہوتی کے حدود میں ان کی ایک رنگین محفل جاری تھی جس میں بے حیائی اور فحاشی کے اعلی ترین مظاہرے ہورہے تھے۔ نہایت اونچی آواز میں میوزک کے بے ہنگم شور نے رات کے سناٹے میں ایک کہرام برپا کیا تھا اہل علاقہ جس سے شدید بے چین تھے۔ لہذا پولیس نے چھاپہ مارا خواجہ سراؤں کی غنڈہ گرد مزاج کے پیش نظر ان سے کوئی تعرض کیے بغیر نہایت غیر اخلاقی حرکتوں میں مصروف کچھ اوباش نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ اگرچہ پولیس نے کسی بھی خواجہ سرا کو ہاتھ تک نہیں لگایا مگر اس کے باوجود اپنی روایتی بدمعاشی پر عمل پیرا ہوکر ان اوباشوں کو چھڑوانے سینہ تان کر تھانے پہنچ گئے اور وہاں ایک ہنگامہ برپا کردیا توڑ پھوڑ کے ساتھ ریکارڈ کے دستاویزات کو بھی نذر آتش کردیا۔
مگر جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ہر فرعون را موسیٰ یہاں بھی ایک نڈر بیباک اور ہر قسم کے نتائج سے بے پرواہ ایک جری اور جرات مند پولیس آفسر محترم داؤد خان نے ان غنڈہ گردوں کی اس غیر قانونی حرکت پر خوب درگت بنائی۔ ایک ایسے سماج میں جہاں بڑے سے بڑا طرم خان بھی ان کے خلاف زبانی کلامی بات تک نہیں کرسکتا وہاں محترم داؤد خان کا آئین و قانون کا محافظ بن کر ان غنڈہ گینگ کی سرکوبی کرنا ایک مستحسن اور جرات آموز اقدام ہے جس کی تحسین کرنا ہر اس شخص پر فرض ہے جو اس سماج میں پاکدامنی اور حیا جیسے خوبصورت جذبوں سے عبارت دین اسلام کے فروغ اور آئین و قانون کی حکمرانی کا متمنی ہوں۔ یہ بات انتہائی سکون بخش ہے کہ جب اس نڈر پولیس آفیسر کے خلاف اس گینگ سے خائف اعلی افسران نے محکمہ جاتی کارروائی کا فیصلہ کیا تو اہل مردان کا ایک جم غفیر اس بہادر سپوت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگیا اور بغرض تعاون و ہمدردی ریلیاں نکالی گئیں اور اعلامیے جاری ہوئے جس میں کسی بھی گروہ اور جتھے کی یوں کھلم کھلا غنڈہ گردی کی بھر پور مذمت گئی۔
میں نے تمہید اپنے اس اعتراف جرم پر باندھی کہ من حیث القوم ہم نے ان لوگوں کے ساتھ صائب رویہ اختیار نہیں کیا۔ یہ لوگ مسلسل ہمارے ناروا سلوک کا نشانہ بنتے رہے ہیں مگر اب جب کہ دنیا ان کے ساتھ کھڑی ہے اس تناظر میں ان لوگوں کے ان غیر اخلاقی رویوں کی توجیہہ بھی بالکل ممکن نہیں۔ ردعمل کے نفسیات کا لازمی نتیجہ تخریب سے عبارت ہوتا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف ہم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں اور اسلام کے بین اصولوں کی روشنی میں اپنے اس طرز عمل کا جائزہ لیں جو ایک عرصے سے ہم نے اس طبقے کے ساتھ روا رکھا ہے اور دوسری طرف اس طبقے سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی ذرا سوچے کہ ردعمل اور بدلے کی نفسیات نے ان کو کس انتہاء پر لا کھڑا کردیا ہے ان کو اب نہ آئین کی پرواہ ہے نہ قانون کی فکر اور نہ خدا کا خوف لہذا ہر دو فریق عقل کے ناخن لے وگرنہ بعید نہیں کہ یہ تصادم کسی بڑی تباہی کا باعث بن کر قوم کا شیرازہ بکھیر سکتا ہے۔