Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Farhan
  4. Azad Pakhtunistan Ke Naare Aur Mustaqbil Ke Andeshe

Azad Pakhtunistan Ke Naare Aur Mustaqbil Ke Andeshe

آزاد پختونستان کے نعرے اور مستقبل کے اندیشے‎

انسان اپنی فطرت اور اپنے مزاج میں نہایت عجیب واقع ہوا ہے ہم اگر انسانی وجود کا تجزیہ کریں تو اپنی ذات میں گوناگوں صفات کا حامل انسان اخلاقی وجود کے ساتھ انا، برتری، تغلب اور انتقام جیسے پر تشدد داعیات بھی رکھتا ہے اگر کوئی شخص یا کوئی طاقتور گروہ اپنے انہی درجہ بالا داعیات سے مجبور ہوکر اپنے جیسے انسانوں پر عرصۂ حیات تنگ کردے تو ان مظلوم و مقہور لوگوں میں بھی ظالم گروہ کے خلاف ردعمل کے انتہائی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور پھر وہی لوگ جو ظلم کی چکی میں پسنے کے بعد تاریخی عمل کے نتیجے میں طاقت کے ایوانوں پر قابض ہو جاتے ہیں تو پھر وہی ظالم طبقہ مظلوم بن کر دور گزشتہ کے مظلوم طبقے کے اندوہناک مظالم کا نشانہ بنتا ہے یہی تاریخ کا سبق ہے۔

اس تمہید کے پیشِ نظر ہمارے ملک میں پاک فوج کے مسلسل ناروا اور جابرانہ رویے کے ردعمل میں ہم پٹھانوں میں پیدا ہونے والے وہ انتہائی جذبات ہیں کہ جو آج کل نکتۂ عروج پر ہے اور اب ہم مجبور و مظلوم پٹھان ملک کی سالمیت اور خودمختاری تک پر سمجھوتا کرنے کے لئے تیار ہوگئے ہیں اور اس ملک سے علیحدگی کی باتیں شروع ہوگئی ہیں بہت سے لوگ بغیر کسی تردد کے آذاد پختونستان کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن میری دانست میں یہ ہر لحاظ سے تاریخی اور معروضی حقائق سے متصادم ایک ایسا جذباتی اور ہیجانی نعرہ ہے جو ردعمل کے نفسیات کے تحت نشونما پارہا ہے اور ظاہر ہے کہ ردعمل کے نفسیات انتہا پسندی سے مہمیز پاتے ہیں جس میں عقل و خرد اور منطق و دلیل کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

ان نادان پختونوں سے بصد احترام گزارش ہے کہ بالفرض اگر ہم اپنے اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو بھی جائیں تو کیا ہمارے پاس اس نئی اور نوزائیدہ مملکت کو چلانے کے لئے کوئی روڈ میپ موجود ہے؟ کیا ہمارے پاس جدید طرز پر استوار وہ انڈسٹریز اور اس کے چلانے کے لئے ہنرمند افرادی قوت موجود یے کہ جنہیں کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے؟ کیا ہمارے لئے نوزائیدہ مملکت میں رہنے والے لوگوں کے لئے گندم چاول اور ان جیسے بنیادی ضروریات زندگی کے اشیاء خوردونوش کی فراہمی ممکن ہوگی؟ کیا ہماری ایگریکلچر انڈسٹری اس قابل ہے کہ وہ پورے ملک کی یہ بنیادی ضروریات پوری کرسکیں؟

ہم تربیلا ڈیم پر بڑے اتراتے ہیں اور نہایت رعونت سے یہ بے پُرکی اڑا دیتے ہیں کہ پورے ملک کو بجلی ہم فراہم کرتے ہیں حالانکہ ملک میں بجلی کی مجموعی کھپت 25 سے 30 ہزار میگاواٹ ہے اور تربیلا کی پاور جنریشن تین سے چار ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ ہے۔

لیکن پھر بھی چلو مان لیتے ہیں کہ ہم پورے ملک کو بجلی فراہم کرتے ہیں مگر ہمارے صوبے کو گندم چینی گھی چاول سمیت کئی اشیاء ضروریہ دوسرے صوبوں سے درامد ہوتا ہے۔ ہمارے پلے بجلی کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں اب اگر کھانے کے لالے پڑھ جائے تو پھر خالی بجلی سے تو پیٹ بھرنے سے رہا۔ اگر زندہ رہنے کے واسطے ناگزیر ٹھرے اشیاء ضروریہ کا فقدان ہوں تو بجلی کا کیا کریں گے! اچار ڈالیں گے اور اتنی پیداوار ہے بھی نہیں کہ باہر ملکوں کو بھیج کر زرمبادلہ کمائے۔

سب سے اہم بات کہ خطے میں ہماری جغرافیائی پوزیشن کیسے ہوگی ایک طرف پاکستان جیسی مضبوط اور ایٹمی قوت کا حامل ملک دوسری طرف افغانستان جیسی طاقت جو ہمارے اس صوبے کو جسے الگ ملک بنانے کا ہمیں آج کل بہت شوق چڑھا ہے کو اپنی کھوئی ہوئی جاگیر سمجھتا ہے اور گاہے گاہے اس کے حصول کے لئے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے مگر پاکستان جیسے ملک سے مقابلے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے خاموش بیٹھا ہے اگر ہم پاکستان سے کٹ کر علیحدہ ہوگئے تو افغانستان ہمیں ترنوالہ سمجھ کر نگلنے میں توقف نہیں کریں گا۔ یہاں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ شنوائی ہوں ہی جاتی ہیں وہاں تو نہ انسانی حقوق کا کوئی پاس ہے اور نہ انسانی جان کی قدر۔ اگر داڑھی منڈوانے پر بھی کوڑے کھانے کے لئے کوئی تیار ہوں تو اور بات وگرنہ افغانستان سے لاکھ درجہ ہمارا ملک بہتر ہے۔

میں یہ مانتا ہوں کہ اس ملک کی مقتدرہ نے روز اول سے پختوں بلٹ میں خون کی ہولی کھیلی ہے عالمی سامراج کے مفادات کے تحفظ کے لئے یہ خطہ دہائیوں سے جنگ کے الاؤ میں جلنے کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے مگر اس کا حل ہرگز بٹوارا نہیں بٹوارے پر مشتمل کئی episodes یہ خطہ دیکھ چکا جس کے ہولناک نتائج سے ہر ذی فہم بخوب واقف ہے لہذا ردعمل کے اس جذباتی یلغار سے نکل کر بصیرت افروزی کے ساتھ ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم پختونوں کا مفاد اسی میں ہے کہ ہم اس ملک میں رہ کر اپنے حقوق کے حصول کے لئے آئینی اور قانونی جنگ لڑے بصورتِ دیگر مبنی بر تقسیم و تخریب عزائم ہمیں بقا کے مسئلے سے دوچار کرسکتے ہیں یقین نہیں آتا تو تاریخ کے جھروکوں میں جھانکیے۔۔

(کربلا پر جاری سلسلہ تحاریر ہنوز جاری ہے مگر وقت کے ناگزیر تقاضے کے پیش نظر یہ بلاگ لکھنا پڑا)۔

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan