Tajassus Ka Jadoo
تجسس کا جادو
بچپن سب نے گزارا ہے مگر بہت سوں کہ لیے اب بھی زندگی بچپن جیسی ہے۔ وہی شرارتیں اور وہی بچپن کا جنون جس میں ہر چیز کو کھول کر دیکھنے، توڑنے اور پھر سے جوڑنے کی لا حاصل سعی۔ آپ آج آٹھ گھنٹے ٹھنڈے آرام دہ آفس میں سکون سے بیٹھ کر کی جانے والی جاب سے "تھک" کر جب گھر جاتے ہیں اور آپ کے بچے آپ کا استقبال شور شرابے اور ہلڑبازی سے بھرپور ماحول میں کرتے ہیں تو کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آپ اتنی تھکن کیوں محسوس کر رہے ہیں جب کہ بچہ سارا سارا دن کھیل کر، اسکول مدرسے اور ٹیوشن بھگتا کر اور طرح طرح کی اچھل کود کے باوجود بھی فریش ہیں۔ کیا یہ صرف عمر کے فرق کی وجہ سے ہے؟ وجہ ہے تجسس۔
1626 میں ایک سرد اپریل کے دوران فلسفی اور سائنسی طریقہ کار کا علمبردار فرانسس بیکن، لندن کی برفیلی سفید گلیوں سے گزر رہا تھا جب اس کے ذہن میں ایک دلچسپ سوال آیا: کیا سردی ایک مردہ مرغی کو بچانے میں مدد دے گی؟ قریبی گھرانے سے ایک مرغی پکڑنے کے بعد اس نے مرغی کو برف سے بھرنا شروع کیا۔ اس عمل میں مرغی کو ٹھنڈ لگ گئی، اس کے بعد نمونیا اور موت واقع ہوئی۔
فلسفی تھامس ہوبز کی طرف سے پھیلائی گئی یہ ممکنہ طور پر مشکوک کہانی، تجسس کے دو چہروں کی طرف اشارہ ضرور کرتی ہے: ایک خوبی، دوسری برائی۔ تجسس سائنس، تلاش اور دریافت کے پیچھے محرک ایک قوت ہے، جس کی شکل میں یہ ہماری انواع کی کامیابی میں ہماری ذہانت کی طرح اہم رہی ہے۔ تجسس انفرادی طور پر بھی ہمارے لیے ایک اعزاز ثابت ہو سکتا ہے، جو ہمیں پرجوش، مقصد سے بھرپور زندگیوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ لیونارڈو ڈا ونچی جیسے مسلسل متجسس لوگوں کے بارے میں سوچیں اور دیکھیں کہ وو تجسس کی وجہ سے کہاں تک کامیاب ہوئے۔
لیکن "دماغ کی ہوس"، جیسا کہ ہوبز نے تجسس کو نام دیا ہے، اس وقت غلط ہو جاتا ہے جب یہ ہمیں کلک بیٹ اور جعلی خبروں پر وقت ضائع کرنے، سوشل میڈیا فیڈز کے ذریعے فضول سکرول کرنے یا خطرناک حد تک انتہائی تجربات کا پیچھا کرنے کی طرف لے جاتا ہے، جیسے کہ پیرا شوٹ سے چھلانگ لگانے میں کیسا مزہ پوشیدہ ہے یا سکوبا ڈائیونگ کا انوکھا تجربہ۔ تجسس کی لذت ہی انسان کو متحرک رکھتی ہے اور "ایکسٹرا" کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
بچے ہر کام میں تجسس تلاش کرتے ہیں، اسی لیے وہ اتنے سوال کرتے ہیں، یہ کیا ہے؟ یہ کیسے ہوگا؟ یہ کب ہوگا وہ کب ہوگا؟ انہیں سوالوں سے ان میں جاننے کا شوق پروان چڑھتا رہتا ہے اور جب یہ ختم ہو جاتا ہے تو یہ "بڑے" ہو جاتے ہیں اسی لیے بوریت زندگیوں میں گھر کر لیتی ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی میں چوں کہ تجسس ایک کمیاب شے بن جاتی ہے اور کام یا نوکری ایک فکسڈ روٹین بن جاتا ہے اس لیے زندگی بوریت کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ آرام دہ جگہ اور ہر سہولت کی دستیابی بھی کام کی جگہ کو ایڈونچر اور دلچسپ نہیں بنا پاتی۔ اگر تجسس اور جاننے کا شوق پیدا کیا جاۓ تو کام کی جگہ جس کی نظر ہم زندگی کا ایک بڑا حصّہ کرتے ہیں، کو ایک بہترین جگہ میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف بچے ہر وقت "کچھ نیا" کرنے اور تجربات کرنے کے تجسس میں مبتلا رہتے ہیں جس سے ان میں بوریت کا عنصر نا ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ آپ بچے کو فقط ایک کھلونا بھی دیں تو وہ اس سے الگ الگ انداز میں کھیل لے گا اور اس "ریسورس" کو بروئے کار لاتا رہے گا۔ بچے اپنی "اسپیس" کا بھرپور استعمال کرتے ہیں، شاندار کوآپریشن کرتے ہیں، ان میں بہترین لیڈرشپ کی صلاحیتیں ہوتی ہیں اور یہ سوشل ریلیشن شپ کی بھی اعلی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان سب کے پیچھے ایک بڑی قوت ان کا متجسس ہونا اور جاننے کا شوق اور جذبہ ہوتا ہے۔
مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ نئے تجربات کے لیے کھلا رہنا آپ کے دماغ کو متحرک اور چوکنا رکھتا ہے جو بڑی عمر میں بے حد مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنی ای بک The Power of Premonitions میں، Larry Dossey نے تحقیق کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ "جو خواتین باقاعدگی سے چھوٹے اسرار میں مشغول ہوتی ہیں، ایسے نئے تجربات کرتی ہیں جو انہیں مانوس معمولات سے نکال دیتی ہیں، بعد میں زندگی میں اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر محفوظ رکھتی ہیں"۔
دماغ ایک مسل کی طرح ہے، یہ ورزش سے مضبوط ہوتا ہے، اور تجسس سے بہتر کوئی ذہنی ورزش نہیں ہو سکتی۔ تجسس کی اہمیت واضح ہے۔ آپ نئی چیزوں کا تجربہ کیے بغیر اور سیکھے بغیر ایک مکمل زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟ بہت کم لوگ آپ کو دلچسپ پائیں گے، اور آپ کو زندگی کے عجائبات میں دلچسپی نہیں ہوگی جو ہر روز آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔
اگرچہ تجسس کے فوائد پہلے سے ہی متجسس لوگوں کے لیے بڑی خبر ہیں، لیکن ان لوگوں کا کیا ہوگا جو ایسے نہیں ہیں؟ کیا آپ کو بس ہار مان لینی چاہیے اور یہ قبول کرنا چاہیے کہ آپ واقعی کبھی خوش نہیں ہوں گے اور کبھی کچھ نیا کرنے کی کوشش بھی نہیں کرینگے؟ اندر کے بچے کو پھر سے جوان کریں اور ہر کام اور ہر چیز میں تجسس شامل کریں پھر تجسس کا جادو اور نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔