Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Sher De Puttar

Sher De Puttar

شیر دے پتر

شیر کو کون نہیں جانتا، شیر کی دہشت جنگل سے شہر تک پھیلی ہوئی ہے، قصے کہانیوں میں ہم نے پڑھ اور سن رکھا ہے کہ شیر کو جنگل کا بادشاہ کہا جاتا ہے مگر شیر کو جنگل کا بادشاہ کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ ٹائٹل شیر کو کس نے دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ شیر جنگل میں تو رہتا ہی نہیں۔

شیر یقینا خطرناک اور خوفناک جانور ہے جو آن کی آن میں کسی بھی جانور کو شکست دینے کے قابل ہے اور دہشت کے لیے شیر کا نام ہی کافی ہے۔ کسی نڈر اور جنگجو شخص کی بہادری کو شیر سے ہی تشبیہ دی جاتی ہے۔ شیر کی خوفناک دھاڑیں (جو تقریباً 5 میل یا 8 کلومیٹر کے فاصلے پر سنی جا سکتی ہیں)، پراعتماد چال، بھرے ہوئے پٹھوں والا جسم، اور بہادری دراصل شیر کو جنگل کا بادشاہ بننے کا اہل بناتی ہے حالانکہ وہ حقیقت میں جنگل میں نہیں رہتا۔

شیر کا پسندیدہ مسکن گھاس کے میدان، سوانا، کھلے جنگلات اور اس قسم کے کھلے ماحول انہیں اپنے اہم شکار کو تلاش کرنے کی اجازت دیتے ہیں ہرن، زیبرا، غزالیں، جنگلی جانور اور بعض اوقات وہ بڑے جانوروں پر حملہ کرتے ہیں جیسے زرافے، پانی کی بھینسیں، ہپوپوٹیمس، وائلڈ بیسٹ اور یہاں تک کہ رینگنے والے جانور، جیسے مگرمچھ۔ شیر (پینتھیرا لیو) طاقتور، بڑی بلیاں ہیں جن کا تعلق فیلیڈی خاندان سے ہے۔

"جنگل کے بادشاہ" کے طور پر ان کی ضرب المثل حیثیت ہزاروں سال پہلے عطا کی گئی تھی اور انسانی ثقافت اور تاریخ میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

شیروں کا رویہ ان کے مزاج پر منحصر ہوتا ہے۔ ان کی شکار کی سرگرمیوں کے لیے سب سے اہم اوقات صبح اور شام ہوتے ہیں لیکن شکار کے حساب سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ کیا یہ اپنی جسمانی طاقت سے حکومت کرتا ہے؟ نہیں! شیر کا جسمانی سائز زیادہ متاثر کن نہیں ہوتا ہے، اوسط جانور 4.5-6.5 فٹ (137-198 سینٹی میٹر) لمبا، 3.5 فٹ (107 سینٹی میٹر) تک اونچا ہوتا ہے، اور اس کا وزن زیادہ سے زیادہ 500-550 پاؤنڈ ہو سکتا ہے۔ 227-250 کلوگرام)۔

یہ جنگل کا تیز ترین جانور بھی نہیں ہے۔ وہ عزت چیتے کی ہے۔ نہ ہی اس کا خوفناک چہرہ یا جسمانی شکل اسے یہ اعزاز حاصل کرتی ہے۔ پھر اسے حکومت کرنے کا کیا حق ہے؟ شیر کی حکمرانی کی اصل وجوہات سراسر طاقت، جسمانی خوبصورتی، اپنے علاقے اور خاندان کی حفاظت، بے خوفی اور شاہانہ لائف سٹائل ہیں۔

سچ پوچھیں تو یہ آخری خصوصیت کمال کی ہے، باقی خصوصیت تو بہت درندوں پرندوں میں مل جائینگی ڈھونڈنے سے۔ آپ نے اکثر ایسے بچوں کے بارے میں سنا ہوگا بلکہ ان کی زیارت بھی کی ہوگی جو "کچھ" نہیں کرتے اور ان کی مائیں انہیں"شیر دا پتر" کہتی ہیں۔ خبردار! اس سے یہ نتیجہ ہر گز اخذ مت کیجئے گا کہ ان کے والد گرامی بھی کوئی کام نہیں کرتے اور شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ "فضیلت" صرف جنگل کے شیر کو حاصل ہے۔

ایک شیر دن میں 20 گھنٹے سو سکتا ہے۔ ان کے کھانے پینے اور چلنے پھرنے کی عادتیں بھی بادشاہوں سے ملتی جلتی ہیں۔ اور ہمارے آج کل کے "شیر دے پتر" بھی بارہ پندرہ گھنٹے سوتے ہیں، رات میں شکار کرتے ہیں اور بس برگر پیزے کا شکار کرتے ہیں اور اسٹنگ، کولا پیتے ہیں، کمانے کا کام "وڈے شیر" کرتے ہیں۔ شیر دا پتر صرف "چیر پھاڑ" کرتا ہے۔ زندگی حسین ہے۔

شیروں کی دیگر شاہی خصوصیات کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے۔

شیر بہادری سے بادشاہوں کی طرح اپنے علاقوں کا دفاع کرتے ہیں۔ سماجی بلیاں ہونے کے ناطے، شیر متعین سماجی گروہوں میں رہتے ہیں، جنہیں"پرائیڈ" کہا جاتا ہے، جو مخصوص علاقہ رکھتے ہیں۔ شیرنیاں شکار کرنے اور شیر کو کھانا کھلانے کی ذمہ دار ہیں (جیسے شاہی وزراء اور منتظمین)۔

شیر دے پتر بھی سماجی اور دوستی نبھانے کے معاملات میں کسی طرح بھی جنگل کے شیر سے کم نہیں۔ اپنے موبائل کی دل و جان سے حفاظت کرتے ہیں، پاس ورڈ لگاتے ہیں، فولڈر چھپانے میں ماہر۔ دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، گھر ہو یا کالج، یہ شیر دے پتر ان دیکھی دوستیاں نبھائے جا رہے ہیں، پیار کی پینگیں بڑھائے جا رہے ہیں اور ان دیکھے چاچے مامے بنائے جا رہے ہیں۔ جنگل کا شیر تو مخصوص علاقوں میں رہنے کا عادی ہے، ہمارے یہ شیر دے پتر گلوبل ولیج میں رہتے ہیں، اسی کو انہوں نے چڑیا گھر بنا رکھا ہے۔

انسان نے دماغ کا اعلی ترین استعمال کر کہ شیر جیسے درندے کو بھی سرکس کاجو کر بنا دیا ہے۔ شیر جیسا خطرناک جانور انسان کے صاف ستھرے اشاروں پر ایسے ناچتا ہے جیسے مداری کا بندر۔ شیر دے پتر نے نا صرف پورے گھر کو بلکہ پورے محلے کو "سرکس" بنا رکھا ہے، یہ واحد شیر ہے جو خود نہیں ناچتا بلکہ دوسروں کو نچاتا ہے اور ان کی نیندیں اڑا تا ہے۔ یہ شیر دا پتر جنگل میں نہ رہتے ہوئے بھی شیر کی سی درندگی مطلب زندگی انجوائے کر رہا ہے۔ یہی شیر دے فارغ پتر نوکری اور کوئی ہنر نہ ہونے کی وجہ سے لوٹ مار مچا کر رکھتے ہیں۔

شیر بیچارہ حالت بھوک میں بتقاضہ حیوانیت شکار کرتا ہے، اپنی اور اپنے بچوں کی پیٹ کی آگ بجھاتا ہے مگر یہ شیر دے پتر فارغ ہونے کی وجہ سے راہگیروں اور مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں، ان کی جمع پونجی سے محروم کردیتے ہیں۔ معصوم لوگوں کی جان تک سے کھیل جاتے ہیں۔ درندگی اور حیوانیت میں شیر دے پتر شیر کے بھی باپ ہیں۔ کوئی تو ایسا انسان ہو جو ان شیر دے پتروں کو لگام ڈالے اور انہیں اصلی شیر کی طرف سرکس میں ہی کام دلا دے۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi