Law Of 29
لاء آف 29
الیکٹرانک ٹیلی ویژن کا پہلی بار کامیابی کے ساتھ 7 ستمبر 1927 کو سان فرانسسکو میں مظاہرہ کیا گیا۔ اس نظام کو 21 سالہ موجد فیلو ٹیلر فرنس ورتھ نے ڈیزائن کیا تھا جو 14 سال کی عمر تک بغیر بجلی کے گھر میں رہتا تھا۔ یقیناً مسائل اور آزمائش میں ہی مواقع پوشیدہ ہوتے ہیں۔
ٹیلی ویژن کی ایجاد سے قبل کوئی تصور نہ تھا کہ کیسے پہناوے ہونے چاہئے اور کھانے میں کیا کھانا ہے، کونسا کوکنگ آئل صحت بخش ہے اور کونسا جوتا آرام دہ، ڈرنک کونسی پینی ہے یا دودھ کونسا استعمال کرنا ہے، پانی بھی بیچا جا سکتا ہے، کس گوشت کا ذائقہ دوسروں سے بہتر ہے اور کونسا اسکول بچوں کے لیے سب سے اچھا۔
ٹی وی کیا آئی سب "ہوشیار" ہو گئے، ہمیں شاپنگ سینس آگیا۔ پہلے تو جیسے ہم انسان جنگل میں رہ رہے تھے جسے خریداری کا الف ب بھی نہ پتا ہو۔ ایمانداری سے ایک ہاتھ دل پر اور دوسرا جیب پر رکھ کر بتائیں پہلے زیادہ بیماریاں اور مسائل تھے مصنوعات کی وجہ سے یا اب ہیں؟ مہنگائی کا اثر پہلے زیادہ محسوس ہوتا تھا یا اب جب سب برانڈ کونشس ہوگئے ہیں؟
ٹی وی نے مصنوعات بنانے والے کارخانوں کو جیسے آکسیجن فراہم کردی اور وہ کھل کر کھیلنے لگے۔ اب دنیا کو پتا چلا کہ "برانڈ" بھی کوئی چیز ہے اور اس کے بغیر تو زندگی اور گھر خالی خالی ہیں۔ ٹی وی کی آمد کے ساتھ ہی اشتہارات کی اندھیر نگری نے جنم لیا۔ دنیا گلوبل ولیج بن گئی اور ایک ملک سے اشیا دوسرے ملک با آسانی پہنچنے لگی۔ دودھ سے لے کر کار تک اور بنیان سے صابن، ٹوتھ برش، شیمپو تک سب ہمیں ٹی وی بتاتا ہے کہ یہ لینا ہے یہ نہیں۔
بات اب ٹی وی سے آگے جا چکی ہے اور سوشل میڈیا اشتہارات کا گڑھ بن چکا ہے۔ اب روزانہ خبروں سے قبل، ڈرامے کے دوران، یو ٹیوب، فیس بک، گوگل پر، میچ کے بیچوں بیچ، ٹاک شوز کے ساتھ اشتہارات کی وافر ڈوز دی جاتی ہے جب کہ رمضان المبارک کو تو اشتہارات کی منڈی بنا دیا گیا ہے۔ ایک ہی اشتہار بار بار دیکھنا بلکہ جھیلنا پڑتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ چھوٹے بڑے برانڈز اشتہارات پر کثیر سرمایا خرچ کرتے ہیں؟ وجہ ہے 29 کا قانون۔
29 کا قانون موجودہ دور کی مارکیٹنگ کے ایک تصور کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کمپنیاں ان پر فتح حاصل کرنا چاہتی ہیں تو کم از کم 29 بار اشتہارات اور دیگر حکمت عملیوں (اس میں اداکاروں، کھلاڑیوں اور مشہور لوگوں کو شامل کرنا) کے ذریعے صارفین کو اپنی مصنوعات اور خدمات سے آگاہ کریں۔
29 کا قانون، جو کہ ایک غیر تحریری قاعدہ ہے، ڈرپ مارکیٹنگ کی بنیاد ہے، جس میں صارفین کو بھیجے جانے والے مارکیٹنگ مواد کا مسلسل سلسلہ شامل ہوتا ہے۔ 29 کے قانون کا استعمال کمپنیوں کو نئے صارفین کو راغب کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ صارفین کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنے میں مدد کر سکتا ہے۔ عالمی ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ مارکیٹ 2026 تک $786.2 بلین تک پہنچ جائے گی۔
وبائی مرض کے نتیجے میں لوگ گھر پر رہے اور گھر سے دور کام کر رہے تھے، جس کے نتیجے میں آن لائن ٹریفک میں زبردست اضافہ ہوا۔ آن لائن ٹریفک میں بڑا اضافہ کمپنیوں کو ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے اقدامات کے ذریعے اپنے ہدف کے سامعین کو مشغول رکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ بجٹ میں وبائی امراض کی وجہ سے کٹوتیوں کی وجہ سے مجموعی طور پر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے اخراجات میں کمی واقع ہوئی ہے، دستیاب بجٹ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے اقدامات پر مرکوز کیے جا رہے ہیں۔
مارکیٹنگ وہ سرگرمی ہے جو ایک کمپنی اپنی مصنوعات اور خدمات کو کھلی مارکیٹ میں صارفین تک فروغ دینے کے لیے کرتی ہے۔ مارکیٹنگ نہ صرف نئے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں مدد کرتی ہے بلکہ کمپنیوں کو ان تعلقات کو برقرار رکھنے میں بھی مدد دیتی ہے جو وہ نئے اور موجودہ گاہکوں کے ساتھ استوار کرتے ہیں۔ اپنی سب سے بنیادی سطح پر، مارکیٹنگ مصنوعات اور خدمات کو ان افراد اور کمپنیوں تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت اور خواہش ہوتی ہے۔
مارکیٹنگ کی دنیا میں کچھ سمجھے ہوئے یا بنے بناۓ اصول ہیں جو کامیابی اور ناکامی کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہیں۔ ان قوانین میں سے ایک 29 کا قانون ہے، جو مارکیٹرز کے یقین اور تجربات سے تیار ہوا ہے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ صارفین کم از کم 29 بار اس کی مارکیٹنگ کی کوششوں کے سامنے آنے کے بعد ہی کمپنی کی مصنوعات اور خدمات کی طرف راغب ہونے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ اس طرح قانون اس بات پر زور دیتا ہے کہ کاروباری دنیا میں خاص طور پر چھوٹے کاروباروں کے لیے مارکیٹنگ کتنی اہم ہے۔
ڈرپ مارکیٹرز جو 29 کے قانون کو استعمال میں لاتے ہیں ان کے پاس مختلف ٹولز دستیاب ہیں۔ وہ اپنی بڑے پیمانے پر مارکیٹنگ کی مہمات کو نشانہ بنانے کے لیے تقسیم کے مختلف طریقوں میں سے انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس میں عام طور پر ٹیکسٹ میسجز، ڈائریکٹ میل، ای میل، سوشل میڈیا مہم، یا ڈائریکٹ میلنگ جیسے طریقے شامل ہوتے ہیں یا ان سب کا مجموعہ۔ یہ بار بار آنے والے پیغامات مارکیٹر کو گاہکوں میں امکانات کو تبدیل کرنے کی امید میں ایک بڑے کلائنٹ بیس تک پہنچنے میں مدد کرتے ہیں۔
دراصل یہ صارف کی نفسیات سے "چھیڑ خوانی" ہے۔ بار بار جب لیمن بار دکھائی دیگا تو دیکھنے والے لیمن بار ہی خرید لینگے یا کوئی کرکٹر کوئی ببل گم چبائیگا تو ہمیں بھی وہی چاہیے کہ یہ شاہد۔۔ معاف کیجئے گا شاید یہ ببل گم کرکٹر بناتی ہے، مشہور ماڈلز اور اداکار جب ہمیں کوئی سستا موبائل یا پان مسالہ خریدنے کی ترغیب دیتے دکھائی دیتے ہیں تو ہم نا چاہتے ہوئے بھی "میں تے اے ای لے ساں" کی رو میں بہتے وہی خرید لاتے ہیں۔ ہے نہ مزے کی سائنس؟
کمپنی اشتہار دکھائے جا رہی ہے اور ہم بار بار اور ہر بار دیکھے جا رہے ہیں اور ہماری دماغ کی نسوں میں پیوست ہوتے اشتہار ہماری نفسیات سے چپکے بیٹھے ہیں۔ ویسے ذرا غور کریں تو کسی بھی معلومات کو یاد رکھنے کے لیے بھی 29 کا قانون آزمایا جا سکتا ہے۔ یہ تیر بہ ہدف اور ثابت شدہ ہے۔ طلبہ کے لیے تو بہترین تریاق ہے۔ انہیں ضرور آزمانا چاہیے۔ اساتذہ بھی اس قانون کا بھرپور استعمال کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی سبق یا مشق جو یاد کرانا مقصود ہے وہ 29 بار دہرا لیں اور ساتھ ہلکا پھلکا "اشتہاری ٹچ" بھی دے دیں تو بچہ ساری زندگی "ڈینٹونک" کی طرح یاد رکھے۔