Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Hum Aath Arab Log

Hum Aath Arab Log

ہم آٹھ ارب لوگ

گزشتہ دن یعنی 15 نومبر کو ہم انسانوں کا قبیلہ آٹھ ارب پر مشتمل ہوگیا۔

منیلا کے شہر ٹنڈو میں پیدا ہونے والی بچی کو دنیا کی آٹھویں بلین شخص کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ ونس مابنساگ کی پیدائش ڈاکٹر جوز فابیلا میموریل ہسپتال میں صبح 1:29 بجے (مقامی وقت کے مطابق) ہوئی۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک خطرناک سنگ میل ہے، نہ صرف تعداد کی سراسر وسعت کی وجہ سے، تصور کریں کہ آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ اسٹیڈیم کا یہ پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیم نے حال ہی میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل کھیلا، اسٹیڈیم کی گنجائش تقریباََ 90 ہزار۔

انسانوں کا ایک سیلاب ہے جو ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ تھوڑا ماضی میں جھانکتے ہیں۔ ہمیں اپنے پہلے ارب تک پہنچنے میں 1804 تک پوری انسانی تاریخ لگ گئی۔ اور پھر ہمیں دوسرے ارب تک پہنچنے کے لیے صرف 123 سال درکار تھے۔ یہ 1927 میں تھا۔ ایک صدی سے بھی کم عرصے میں، یہ تعداد اب چار گنا ہو چکی ہے۔ لیکن آبادی میں اضافہ کوئی بھاگی ہوئی ٹرین نہیں ہے۔ عالمی شرح پیدائش 1964 سے کم ہو رہی ہے، فی عورت 5 پیدائش سے کم ہو کر آج 2 سے 5 سے کم رہ گئی ہے۔

نتیجتاً آبادی میں اضافے کی رفتار پہلے ہی مرتفع ہو چکی ہے۔ 1960 کے بعد سے جب ہم نے اپنا تیسرا بلین حاصل کیا۔ ہم نے ایک مستحکم وقفہ سے اربوں کا اضافہ کیا، ہر 12 سے 14 سال میں تقریباََ ایک۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن نے پروجیکٹ کیا ہے کہ یہ وقفے بلین نمبر آٹھ کے بعد دوبارہ لمبے ہو جائیں گے، اور انسانیت اپنے عروج کو پہنچ جائے گی، کم از کم عددی طور پر۔ صدی کے آخر تک، صرف 11 بلین سے کم۔

آبادی میں اضافے نے اقتصادی ترقی کے ماحولیاتی اثرات کو بھی بڑھا دیا ہے۔ لیکن جب کہ کچھ لوگ فکر مند ہیں کہ 8 ارب انسان سیارہ زمین کے لیے بہت زیادہ ہیں، زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ امیر ترین لوگوں کی طرف سے وسائل کا زیادہ استعمال ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی سربراہ نتالیہ کنیم کا اس بارے میں کہنا ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری دنیا بہت زیادہ آبادی والی ہے۔ میں یہاں واضح طور پر کہنا چاہتی ہوں کہ انسانی جانوں کی تعداد خوف کا باعث نہیں ہے۔

یہ کہنا کہ دنیا کی آبادی بڑھنے سے مسائل بھی بڑھیں گے، زیادہ لوگوں کے لئے زیادہ اناج، زیادہ پانی، زیادہ وسائل اور زیادہ سہولیات درکار ہوں گی، بالکل بجا ہے مگر زمین پر بسے لاتعداد انسانوں کے مسائل تو ازل سے ہیں اور رہیں گے۔ آج کل دنیا میں کوئی بھی بدلاؤ آتا ہے تو اسے مسائل سے ضرور جوڑا جاتا ہے اور جوڑنا بھی چاہیے کیونکہ اسی طرح بہتر زندگی کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ مگر بہت زیادہ انسانوں کا ہونا بھی تو مسائل میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

مثلاََ پاکستان کی مثال لیتے ہیں۔ ہمارے وطن عزیز میں آبادی کا تقریباََ 60 فیصد نوجوان طبقہ ہے جس میں سے تقریباََ ساڑھے چھ کروڑ نوجوان بے روزگار اور "ویلے" ہیں۔ بدقسمتی سے یہ "بڑی آبادی" سوشل میڈیا چیمپیئن اور سیاسی پارٹیوں کی "مین پاور" ہی بن کر رہ گئی ہے، ایک طرف یہ نوجوان طبقہ پڑھا لکھا اور ڈگری ہولڈر ہے مگر اسے ملازمت نہیں ملتی۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارا نوجوان ملازمت کرنے کو تیار ہے مگر "کام" کرنے کو تیار نہیں ہے، "کام جوان کی موت ہے" جیسے محاورے اب زبان زد عام ہیں۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں جب دنیا آپ کی مٹھی میں ہے، کوئی بھی شعبہ کوئی بھی کام آسانی سے دسترس ہے، ٹائی کا ناٹ لگانا ہو یا ایٹم بم بنانے کی ترکیب، ہر کام آپ چند منٹوں میں سیکھ سکتے ہیں، مگر سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ہر وقت "شارٹ کٹ" کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ آج ہم طرح طرح کے نئے شعبے اور پروفیشنز دیکھ رہے ہیں۔

نوجوان نسل میں بہت سے لوگ باقاعدہ یہ کام کر رہے ہیں جیسے یو ٹیوبر، ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایکسپرٹ، ٹک ٹاکر، گوگلر، اور ای کامرس جیسا آن لائن بزنس کرنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، یہ مانا لاکھوں کما رہے ہیں اور یہ کام سیکھنا بہت آسان ہے، بس تھوڑا سا وقت نکالیں یہ کورس آن لائن کریں اور کمانا شروع کر دیں۔ آپ کو کسی کمپنی کو نائن ٹو فائیو جوائن کرنے کی کوئی ضرورت نہیں نہ ہی کسی کے ماتحت رہنے کی۔

مرضی سے کام کریں اور اچھا کمائیں۔ آج سے دس پندرہ سال قبل اس طرح کے پیشوں اور کام کا کوئی تصور نہ تھا، ملک کی بڑی آبادی کا خواب سرکاری نوکری کا حصول تھا، تاکہ کام نہ کرنا پڑے اور تنخواہ ملتی رہے اور بڑھاپے کا بندوبست بھی ہو جاۓ۔ جو تھوڑا پڑھ لکھ جاتے اور سرکاری ملازمت حاصل نہ کر پاتے وہ پرائیویٹ کمپنیوں کی چکّی میں پستے۔ ان پڑھ طبقہ رکشہ ٹیکسی چلاتا یا پان کا کھوکھا کھول لیتا۔

انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی نے بڑھتی ہوئی آبادی کے یہ مسائل بہت حد تک حل کر دیے۔ اب دنیا بھر کی آبادی ایک مارکیٹ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ آپ دنیا میں کہیں بھی گھر بیٹھے کوئی بھی چیز بیچ اور خرید سکتے ہیں۔ فی زمانہ روایتی تعلیم کے ساتھ کوئی بھی اسکل بہ آسانی سے سیکھ کر ہزاروں لاکھوں کما سکتے ہیں۔ گوگل، course era، Edex جیسی بے شمار ویب سائٹس سے مفت کورس کریں اور باعزت طور پر کمانے کا آغاز کریں۔ فیصلہ صرف ایک کلک کی دوری پر ہے۔

نوٹ: میں آن لائن کام سے بھی وابستہ ہوں، کوئی بھی آن لائن کورس کرنا چاہیں یا محدود انویسٹمنٹ میں آن لائن بزنس کر کے اضافی آمدنی۔ اس نمبر پر رابطہ کریں۔ 03002890613

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad