Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sultan Ahmed
  4. Digital Dieting

Digital Dieting

ڈیجیٹل ڈائٹنگ

یہ بلاشبہ دنیا کا انوکھا ترین احتجاج تھا۔ جرمنی کے شہر ہمبرگ میں بچوں نے 2012 میں اپنے والدین کے خلاف احتجاج کیا کہ وہ اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے۔ موبائل فون انکا سارا وقت چرا لیتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق، جرمنی کے شہر ہیمبرگ کی سڑکوں پر سینکڑوں بچے اپنے والدین کی جانب سے اسمارٹ فونز کے بے تحاشہ استعمال پر احتجاج کر رہے تھے۔

احتجاج میں شامل بچوں کو نعرے لگاتے ہوئے دیکھا گیا جس کا مطلب تھا: "ہم یہاں ہیں، ہماری آواز بلند ہے کیونکہ آپ صرف اپنے موبائل فون کو دیکھ رہے ہیں۔ "

احتجاج کی قیادت سات سالہ ایمل نے کی۔ اس نے کہا کہ مجھے امید ہے مظاہرے کے بعد لوگ اپنے موبائل فون پر کم وقت گزاریں گے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ والدین کی اسمارٹ فون کی لت ان کے بچوں میں رویے کے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔ وہ رونے، ہائپر ایکٹیویٹی یا مایوس ہونے کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔

"میرے ساتھ کھیلیں، اپنے اسمارٹ فونز کے ساتھ نہیں"، احتجاج کرنے والے بچوں نے کہا کہ ان کا پیغام تمام والدین کے لیے ہے۔ یہ بار بار ثابت ہوا ہے کہ فون کا استعمال ذاتی بات چیت کے راستے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ جو چیزیں ہم زیادہ تر (سوشل میڈیا، گیمز، یہاں تک کہ فوری پیغام رسانی) کے لیے آلات استعمال کرتے ہیں وہ دماغ میں ڈوپامائن ریسیپٹرز کو ان طریقوں سے فیڈ کرتی ہیں جو نشے کی طرح کام کرتے ہیں۔ فون کو نیچے رکھنا مشکل ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب آپ کا بچہ رو رہا ہو۔

اس سلگتے موضوع پر تحقیق کا آغاز ہو چکا ہے۔ یونیورسٹی آف مشی گن اور الینوائے سٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ٹیک سے متعلقہ رکاوٹوں کی کم یا بظاہر معمول کی مقدار بچوں میں زیادہ رویے کے مسائل سے منسلک ہوتی ہے۔ اس سے حد سے زیادہ حساسیت، گرم مزاج، چڑچڑا پن، اور بے وجہ رونا چند مسائل ہیں۔ ایک اور تحقیق کے نتیجے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ آلات میں مصروف بالغ افراد کی طرف سے بچے کسی بھی طرح توجہ حاصل کرنے کے لیے، خواہ وہ منفی طریقے سے ہو، پریشانی والے رویے کا سہارا لے رہے ہیں، جیسے کہ غصے میں چیزیں پھینکنا یا غصہ کرنا۔

مختلف سروے سے پتہ چلا ہے کہ بچے اپنے والدین کی توجہ کے لیے آلات سے "مقابلہ" کرنے سے واقف ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک امریکی سروے میں پایا گیا کہ سروے میں شامل تقریباً، 1000 نوجوانوں میں سے 33 فیصد نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ والدین گفتگو کے دوران اپنا فون بند رکھیں۔ ایک اور سروے نے آٹھ ممالک میں 8 سے 13 سال کی عمر کے چھ ہزار سے زیادہ بچوں کا انٹرویو کیا - جس سے معلوم ہوا کہ ان میں سے نصف سے زیادہ نے محسوس کیا کہ ان کے والدین فون پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک تہائی نے اس وقت نظر انداز اور غیر اہم محسوس کرنے کی اطلاع دی جب والدین اپنے فون میں مصروف تھے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے بچوں میں اور ہم میں گیپ بڑھتا جا رہا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مل جل کر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والا بنایا ہے۔ زندگی جب تک حقیقی معنوں میں سوشل تھی، سب ٹھیک تھا جب سے یہ سوشل میڈیا پر گئی ہے زندگی سے زندہ دلی رخصت ہوگئی۔ سوشل میڈیا اور موبائل فون کی آمد سے قبل لوگ پڑوسیوں کو محلے والوں کو جانتے تھے۔ دکھ درد میں ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔ خوشیاں سانجھی تھیں۔ نا صرف اپنے بچوں بلکہ دوسروں کے بچوں کے حالات، انکی تعلیم اور کیریئر تک سے واقف تھے۔ ایک دوسرے سے چھوٹی موٹی چیزیں مانگنے میں آر محسوس نہیں ہوتا تھا۔ کم میں بھی گزارا ہو جاتا تھا اور وقت تو جیسے نصیب سے زیادہ لکھوا لائے تھے۔

نوکری، دکان اور کام سے فراغت کے بعد کا وقت اپنوں کے ساتھ اپنوں میں گزرتا تھا۔ ایسے کھیل اور شغل زندگی کی رونقیں تھے جو کم خرچ ہونے کے ساتھ ساتھ "جوڑنے" والے تھے۔ یہ سارے لوازمات زندگی کی بہاریں تھیں۔ یہی زدگی کے رنگ اور ذائقے تھے۔ یہی زندگی کی حرارت تھی۔ اور پھر انسان نے ترقی کی منزل طے کرلی۔ آسائشیں اور آلات زندگی بن گئے۔ ان کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال۔ اب اندازہ ہوتا ہے کہ وقت تو اتنا ہی ہے مگر ہم اسکی مینجمنٹ ٹھیک نہیں کر پا رہے۔ غیر ضروری مصروفیات میں خود کو الجھا کر وقت کو بھی وقت نہیں دے پا رہے۔ انسانوں سے میل ملاقات ورچوئل ہو گئی ہے۔ فاصلے ضرور مٹ گئے ہیں مگر دوری بہت بڑھ گئی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ہماری اولاد ہماری آنے والی نسل بھگت رہی ہے۔

اس کا کیا حل ہے؟ حل آسان ہے۔ جب خوراک کا استعمال بہت بڑھ جاتا ہے تو ہم ڈائٹنگ کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں"ڈیجیٹل ڈائٹنگ" کرنی چاہئے۔ سکرین کا ٹائم متعین اور محدود کرنا ہوگا۔ سوتے وقت موبائل دور کسی میز پر رکھیں نہ کہ کان میں ڈال کے سوئیں۔ اسے اپنی بیوی کی سوتن نہ بننے دیں اور نہ اپنے بچوں کا نعم البدل۔ چھٹی والے دن تو یہ ڈائٹنگ اپنے عروج پر ہو۔ صرف اہم کالز اور بس۔ اگر موبائل مطالعہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو اس کا وقت متعین کرنا ہوگا۔ موبائل کو گھر کا ایک فرد سمجھیں۔ کام کے وقت واقعی کام کرنا ہوگا۔ ای میل، آفیشل ورک اور ضروری سرگرمی کو وقت میں تقسیم کرلیں، قسطوں میں انجام دہی کریں اور مکمل کر لیں۔ مگر آپ سے جڑے لوگ اس کی قیمت نا چکائیں۔

اپنے لوگوں کا ساتھ دنیا کی حسین ترین نعمتوں میں سے ہے اس کا احساس قبر میں جا کر ہوگا۔ ساتھ موجود لوگوں کا آپ کو دیا ہوا وقت سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ اسے ضائع نہ ہونے دیں۔ اس موقع پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ بجلی چلی گئی، انٹرنیٹ بند ہوگیا اور موبائل کی بیٹری بھی ساتھ چھوڑ گئی تو ایک لڑکا اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگا۔ بعد میں دوست کے پوچھنے پر کہ وقت کیسا گزرا بجلی کے بغیر تو اس نے بتایا کہ آج کا دن اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزارا اور یہ راز کھلا کہ یہ لوگ تو اچھے بھلے لوگ ہیں۔

Check Also

2025 Kya Lekar Aaye Ga?

By Muhammad Salahuddin