Decemberi Kaifiyat
دسمبری کیفیت
بھیگا بھیگا سا دسمبر اختتام پذیر ہونے کو ہے اور سال بدلنے کو ہے، کاش کہ ہم اپنی حالت بھی بدلیں کہ حالات بدل جائیں۔ ہر سال کی طرح اس برس بھی ایسے پیغامات کا تبادلہ ہوگا جو آپ نے خود نہیں لکھے ہوں گے۔ اگر ہم خود سے دعائیہ پیغامات نہیں لکھ سکتے تو اپنی حالت کیسے بدلیں گے۔ سردی کی شدّت امتحان لے رہی ہے۔ سائنسی طور پر سردی کے بڑھنے کا براہ راست تعلق نہانے اور منہ دھونے سے دور رہنے کا ہے۔
ویسے کراچی میں اب تک دسمبر بھیگا تو نہیں یہاں تو کوئٹہ "چلتا" ہے اور اس قدر چلتا ہے کہ کراچی والے چلنے کے قابل نہیں رہتے۔ یوں تو دسمبر سرما کا آغاز ہے مگر شاعر اور دیوداس قسم کے ڈسے ہوئے لوگوں کے نزدیک دسمبر اداسی کے لیے بھی بدنام زمانہ مہینہ ہے، پت جھڑ، سنسان راتیں، راتوں میں گونجتا سناٹا اور ہلکی چمکیلی دھوپ اداس مرجھاۓ چہروں کو اور بھی بیزار بنا دیتے ہیں۔
اس وجہ میں جانے سے پہلے کہ دسمبر کا اداسی سے کیا یارانہ ہے؟ پہلے بات ہو جاۓ ان لوگوں کی جو سارا سال ہی دسمبری کیفیت میں ڈبکیاں کھاتے ہیں۔ ان کے لیے سارا سال دسمبر جیسا اداس، روکھا، پھیکا اور تنہائی بھرا ہے۔ ایسے لوگوں سے مل کر بلکہ ان کی زیارت کر کے آپ پر بھی دسمبری کیفیت طاری و حاوی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے دسمبری لوگ جب بھی سامنے آئینگے تو جیسے کوئی اداس اور ویران سایہ طلوع ہو رہا ہو۔
ان کی گفتگو صرف مسائل کا پرچار کرتے اور اسی کی تکرار کرتے شروع ہوگی اور مسائل میں سے مزید مسائل اور ان کے دلچسپ حل بھی پیش کرے گی اور پھر یہ گلے شکوے بھی کریں گے کہ حک و مت (براہ کرم اسے حکومت پڑھنے کی گستاخی نہ کیجیے گا) ان کے پیش کردہ حل قبول نہیں کرتی۔ یہ دسمبری کیفیت میں ڈوبے لوگ ملکی مسائل سے لے کر بین الاقوامی تعلقات سے ہوتے ہوئے معاشی مسائل اور ان کے جامع نسخے اپنی پٹاری میں سے نکال کر بڑھتی آبادی کا رونا روئیں گے (اپنے گھر میں ماشاللہ بیس افراد ہونگے)۔
اس کے بعد کھیلوں پر سیر حاصل سیر کرائیں گے جیسے انکا بچپن ظہیر عباس اور ویون رچرڈز جیسے کھلاڑیوں کے ساتھ گزرا ہو۔ اطمینان رکھیں ابھی ان کے دماغ کی لبالب بھری زنبیل میں بہت مواد ہے اور وہ بھی تازہ۔ پھر یہ سماجی رویوں سے دو چار ہاتھ کر کے مذہبی رہنماؤں کی کلاس لیتے ہوئے پڑوسیوں کے "حقوق" ادا کرینگے۔ آخر کار گھر سے چھوٹا بیٹا بتانے آئیگا کہ ابّا امی پوچھ رہی ہیں اب تک دہی نہیں لائے۔ ان کے جانے کے بعد آپ پر بھی دسمبری کیفیت پوری آب و تاب سے چڑھ جائیگی اور اتنے سارے مسائل سن کر آپ بھی بھول جائیں گے کہ دہی تو آپ نے بھی نہیں لیا۔
چونکہ آپ اپنا دماغ دہی کروا چکے ہوتے ہیں اس لیے اب آپ کو بھی کوئی ایسا ٹارگٹ درکار ہے جو کار روک کر خود کو دسمبری کیفیت سے رنگوا لے۔ مگر کوئی شکار نہ پا کر آپ دہی دانتوں میں دبائے گھر والوں پر ہی برس پڑتے ہیں اور وہ ریپیٹ ٹیلی کاسٹ جو سن سنا کر آئے ہیں وہ سب بمع زائد چھ مثالوں کے ان پر انڈیل دیتے ہیں۔ گھر کے لوگ بھی جان جاتے ہیں کہ آپ پر اس وقت دسمبری کیفیت مسلط کی گئی ہے اس لیے وہ عفو و در گزر سے کام لیتے ہیں اور دوسرے کان کا بہترین استعمال کرتے ہیں۔
چھوٹا منا منہ میں فیڈر دبائے اور پیمپر ٹانگوں میں پھنسائے سب سے غور سے آپ کو سنتا ہے اور صرف سنتا ہے کہ ابھی سنا نہیں سکتا۔ آپ کے ابو اور ایک اور بزرگ ٹائپ (جو وقت سے پہلے وقت سے آگے نکل جاتے ہیں) شخصیت آپ کے اقوال زر زمین پر بات کرنے کو تیار دکھائی دیتے ہیں مگر امی کی پیشگی "روٹی تیار ہے" کی بریکنگ نیوز ان کے مائیک ایسے بند کرا دیتی ہے جیسے اسمبلی میں سپیکر فالتو اور نہ بولنے والوں کے مائیک بند کروا کے تمام ذمہ داریوں سے بری ہو جاتا ہے۔
اسی طرح کے ایک دسمبری کیفیت میں ڈوبے ارسطو ٹائپ شخصیت کے حامل اپنا سارا وقت، توانائی اور زور ایسی لاحاصل گفتگو میں صرف کرتے ہیں۔ اکثر ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے تو کانوں میں باقاعدہ تکلیف ہوتی ہے۔ ویسے ارسطو کا جس دور سے تعلق ہے اس دور میں کیمرے جیسی خرافات ایجادات نہ ہونے سے ارسطو کی شکل و صورت دیکھنے سے یہ دنیا قاصر ہے مگر ان کے چہرے کے خدوخال، حدود اربع اور باتوں کی روانی، فلسفوں کی فراوانی اور ان کی روح پرانی انہیں دور جدید کا ارسطو ثابت کرتی ہے اور ہم اکثر سوچتے ہیں کہ ارسطو بھی اسی شکل و صورت کا حامل ایک شخص ہوگا۔
ویسے اس دور میں ارسطو ایک سوچ ایک نظریے کا نام ہے، ایک کیفیت کا نام ہے اور کوئی بھی کسی بھی وقت اس کیفیت میں باقاعدہ مبتلا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی تو غالب اکثریت اور اکثر اقلیت ارسطو کیفیت میں پائی جاتی ہے۔ یقین نہ آئے تو کسی سے بھی کسی بھی موضوع پر کسی بھی وقت بات کر کے دیکھ لیجیے۔ وہ فلسفہ، مذہب، سیاست، ریاست، روحانیت، معاشیات، سماجیات، کبھی کبھی بکواسیات، گھریلو ٹوٹکے، شوبز، اسپورٹس اور نہ جانے کن کن موضوعات پر ایسی ایسی باتیں کرے گا کہ سن کر تاریخ بھی شرما جائے۔
تو وہ ارسطو کی تھرڈ کاپی نما صاحب بھی ڈھیر ساری باتوں کی باقاعدہ جگالی کرتے ہیں، آپ چاہے ادھر ادھر دیکھیں، گھڑی پہ نظریں گاڑ کر یہ میسج دیں کہ آپ بور ہو رہے ہیں یا نہیں سننا چاہتے، کان، سر، ہاتھ، پاؤں جو مرضی ہو کھجا لیں وہ آپ کے کان اور آپ کی جان نہیں چھوڑیں گے۔ ایسے لوگوں کو باقاعدہ باتیں"لگی" ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ صاحب باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ "پھوار" بھی برساتے ہیں۔
گرمیوں میں تو یہ پھوار قدرے تازگی اور راحت بخش محسوس ہوتی ہے مگر سردیوں میں دور بیٹھنے میں ہی عافیت۔ ارسطو کی تھرڈ کاپی اگر کبھی نسوار بھی لگا لے تو پھر تو باتیں زیارت کے اولوں کی طرح برستی ہیں۔ ان پر طاری دسمبری کیفیت ہر خشک و تر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، ان سے کان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔ انکی کمپنی ایسی ہے کہ پھر کسی ماہ کی ہیبت باقی نہیں رہتی، بس رہے نام دسمبر کا۔
ایک عام خیال ہے کہ ڈپریشن اکثر سال کے اس وقت میں بڑھ جاتا ہے۔ نفسیاتی ٹائمز میں دسمبر 2016 کی ایک رپورٹ کے مطابق، تعطیلات کے موسم میں ڈپریشن اور اس کے ساتھ آنے والے تناؤ کو بیان کرنے کے لیے عام طور پر "چھٹیوں کی اداسی" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
کنزیومر ہیلتھ انفارمیشن ویب سائٹ Healthline (healthline ۔ com) کے 2015 کے سروے میں پتا چلا ہے کہ 62% جواب دہندگان نے تعطیلات کے موسم میں اپنے تناؤ کی سطح "بہت یا کسی حد تک بلند" ہونے کی اطلاع دی۔ اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں ہونے والے موسمی افسردگی میں تناؤ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس طرح، چھٹی والی اداسی کو دماغی صحت کی حالت سے الگ کیا جا سکتا ہے جسے سیزنل افیکٹیو ڈس آرڈر، یا SAD کہا جاتا ہے۔
دراصل سیرٹونن نامی کیمیکل جو کہ موڈ کو کنٹرول کرتا ہے، کی کم مقدار کی وجہ سے ایکٹو ہوتا ہے، اور ساتھ ہی دماغی کیمیکل میلاٹونن کی کم مقدار، جو جسم کو مناسب نیند کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔ ان دونوں کیمیکلز کے نقصانات سردیوں کے مہینوں میں سورج کی روشنی میں کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ لہٰذا SAD کو دسمبر کے ساتھ جوڑنے کی وجہ یہی ہے کہ نہ کبھی تعطیلات ختم ہوں نہ کبھی موڈ متاثر کرنے والا کیمیکل لوچا جنم لے۔ اسی لیے تو ہماری حکومتیں تہواری چھٹیاں ہفتہ وار چھٹیوں کے ساتھ ملانے کے نت نئے فارمولے ایجاد کرتی رہتی ہیں اور بس یہی کرتی ہیں۔
ویسے دسمبر میں پیدا ہونے والوں کا تو نہیں پتہ کہ وہ اداسی پھیلانے کا باعث بنتے ہیں یا نہیں مگر یہ مہینہ ضرور اداسی پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ کسی ماہ میں پیدا ہونے اور اس سے جڑے ستاروں کا علم بھی بڑا عجیب و غریب اور خوب "چلتا" ہوا ہے۔ ہم انسانوں کا قبیلہ آٹھ ارب انسانوں کی حد چھو چکا ہے اور ستاروں (horoscope) کی تعداد بارہ ہے تو اگر تھوڑا سا حساب کتاب سے کام لیا جائے تو فی ستارہ بنے 66 کروڑ 66 لاکھ 66 ہزار 6 سو 66 افراد۔
مطلب ستارہ شناس جو اپنی کمائی کے لیے خود آپ کا محتاج ہے، جو بھی بتائیگا وہ لاکھوں لوگوں کے لیے "خوشی" کی خبر ہی ہوگی۔ ساتھ ہی آفات و بلیات کا نزول بھی لاکھوں کے نصیب میں اترے گا اور ستارہ شناس کی جیب بھاری بھرکم ہوتی رہیگی اور میلہ لگا رہیگا۔ ہزاروں کو شادی کی آس، تو کئی لوگوں کو ملازمت کی پیاس، کہیں سے اچانک پیسہ کی آمد تو کہیں سے بری خبر آنے کی توقع (اس کے لیے ایک گھنٹہ نیوز چنیل ہی دیکھ لے تو خاطر خواہ افاقہ ہوگا)۔
لیجئے ستاروں کی چال ڈھال سے آشنائی بھی ہوگئی اور اپنے کاروبار کی تقریب رونمائی بھی۔ آخر میں دسمبر میں پیدا ہونے والے لوگوں کے نام پیار بھرا پیام کیونکہ یہ لوگ قدرے تاخیر سے دنیا میں وارد ہوئے۔ انہیں پتہ ہوتا کہ دسمبر اداسی بھرا ماہ ہے تو شاید ہاتھ پیر چلاتے اور اپنی "آمد" کچھ قبل یا بعد پر مؤخر کر دیتے مگر حاصل وصول کیا ہونا تھا کہ دنیا میں انسان خود اپنی مرضی سے نہیں آتا۔
آج کل پیشگی مبارکباد کا رواج ہے، عیدین ہوں یا رمضان، شادی ہو یا مکان لوگ پیشگی مبارک دے کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا اسی روایت پر عمل کرتے ہوئے تمام ہی پڑھے لکھے اور ان سے بہتر لوگوں کو نئے سال کی مبارکباد اور فقیر کو یعنی مجھے آج 31 دسمبر میری سالگرہ بہت بہت مبارک۔ (حساب کتاب میں مت پڑ جائیے گا کے یہ پیشگی تو نہ ہوئی، آج 31 دسمبر ہے، تو عرض ہے کہ یہ کالم 31 سے پیشتر ہی قلم بند کر لیا گیا تھا)۔