Zindagi Ka Maqsad
زندگی کا مقصد
سوسائٹی کے بنائے، سمجھائے اور لاگو کیے قاعدوں میں سے ظالم قاعدہ یہ ہے کہ آپ کو کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ مقصد ڈھونڈنا ہے۔ گول سیٹ کرنا ہے اچیو کرنا ہے۔ ہنر سیکھنا ہے کیرئیر بنانا ہے۔ موازنے کے ترازو پر ہر دم لگے مقابلے کو جاری رکھنا ہے۔ سوسائٹی نے اپنے تمبو اس طرح باندھے کہ اس کے تلے ہر ذی روح پر ہنگامی صورتحال طاری ہے۔ بارٹر سسٹم سے نکل کر ایگریکلچر ریولوشن نے جدیدیت اور سہولت کے رستے پر ڈال تو دیا مگر اس رستے پر جگہ جگہ اداسی، بے دلی اور اکتاہٹ جیسی کثافتیں بکھیر دیں۔
مقصد نے ہر کسی کو مصروفیت سونپ دی، انہیں بھی جن کا کام اس کے بغیر چل سکتا تھا جنہیں بے مقصد اور کسی گول کے پیچھے بھاگے بغیر زندگی گزارنا تھی۔ کوئی کیسے سمجھائے کہ اسے دولت نہیں کمانی، گارے، بجری، اینٹ کے داموں میں الجھ کر نیا گھر نہیں بنانا، اُسے پٹرول کی قیمتوں، محکموں کی نااہلیوں، پارلیمنٹ کی سیٹوں پر بیٹھے عوامی نمائندوں کے کسی بھی ایک پہلو کو جاننے، سوچنے اور تبصرہ کرنے کی ضرروت ہی نہیں محسوس ہوتی۔
اُسے وہ نہیں جاننا جو سب جانتے ہیں، وہ نہیں کرنا جو سب کرتے ہیں۔ اُسے مقصد چاہیے ہی نہیں۔ اسے کسی بھی گول تک مارچ کرنے میں دلچسپی ہی نہیں۔ اسے ان جگہوں سے دلچسپی ہی نہیں جنہیں دلچسپ بنایا گیا۔ کیا یہ بات نارمل نہیں ہو سکتی کہ وہ سوچنے کے لیے پیدا ہوا ہو یا محض چپ رہ کر اپنے اندر بھونکنے کے لیے۔ لیکن وہ دال چینی کے نرخ، پٹرول کی قیمت، مکانوں کے ریٹ، اردگرد لوگوں کے نام، کام اور پتے غیر ضروری طور پر کیوں جانتا ہے۔ یہ ظلم کس نے کیا؟ وہ محبور ہو کر عام معاملات اور واقعات میں دلچسپی کیوں لیتا ہے؟
سوسائٹی اس طرح سے کیوں ترتیب دی گئی ہے کہ یہاں سب کو ایک جیسا کام کر کے ایک جیسا ہی بننا ہے اور لازمی طور پر کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ جب اس سیارے پر مقصد سراسر مصنوعی ہے بناوٹی ہے دل بہلانے اور خود کو ختم نہ کرنے کا ذریعہ ہے تو کیا خاموش رہ کر سوچنا اور کچھ نہ کرنا کسی فرد کا مقصد نہیں ہو سکتا؟ کیا وہ محض بیکار گھر کے بستر پہ پڑا کچھ دن جی کر مر نہیں سکتا، کیا جینے کے لیے اُٹھنا لازم ہے؟
کمائی کے رائج سب طریقوں نے ایسے انسان کی زندگی جہنم بنائی جس کی طبیعت میں کُچھ نہ کرنا تھا، سوچنا اور غور کرنا جس کا مقصد تھا وہ گندم کے پیچھے کس قدر روندا گیا، کیا قُدرت ایسے کچھ انسانوں کو بھوک سے آذاد پیدا نہیں کر سکتی تھی؟