Zehni Tabdeeli Mapne Ka Pemana
ذہنی تبدیلی ماپنے کا پیمانہ
کتاب جو پہلے پڑھی ہو، فلم جو پہلے دیکھی ہو، اُس کتاب کو اُس فلم کو عمر کے کسی حصے میں دوبارہ پڑھ لینا چاہیے دوبارہ دیکھ لینا چاہیے۔
پلاٹ اور تھیم کبھی تبدیل نہیں ہوتا انسان کے چیزوں کو سوچنے، سمجھنے اور پرکھنے کے زاویے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ مزاج، ترجیحات، ضرویات، لائکس، ڈِس لائکس یہ سب ٹیسٹ بڈز کی مانند ہوتے ہیں انہیں تبدیل ہونا ہے۔ وہ کھانے جو بچپن میں زبان کو لُبھاتے نہیں تھے وہ کس دن لذیز لگنے لگ جاتے ہیں پتہ نہیں چلتا۔ پتہ صرف اُنہیں ایک مرتبہ پھر سے ٹرائی کرنے پر لگتا ہے۔
مسٹر چپس کی نفسیات، طالبعلموں سے والہانہ لگاؤ، بروک فیلڈ کا پلے گراؤنڈ اور اُس کی مرگ پر کسی کا چُبھتے الفاظ میں کہنا کہ، "مسٹر چپس کی کوئی اولاد نہیں، وہ اکیلے تھے" یہ سب شاید اُس وقت سمجھ نہیں آتا تھا جب مسٹر چپس ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے پڑھتے تھے۔ اب کتاب کھولیں، مسٹر چپس پڑھیں آخری گڈ بائے سُننے کا کرب محسوس ہوگا اور یہی اِس ناول کا حقیقی تھیم تھا۔
حقیقت سے ناآشنائی، تجربے کی کمی، انڈر ڈویلپ جذبات کے زیرِ اثر بچپن میں دیکھی فلمیں جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ زندگی سیدھی ہے، اختتام پر سب نے مسکرا کر ایک دوسرے کو گلے لگانا ہے، ہیرو کو ہیروئن مل ہی جانی ہے وہ فلمیں اب دیکھیں۔ کہانی کار پر تف بھیج کر اپنی معصومیت پر ہنسیں گے۔ آخر کیا وجہ؟ اس قدر ذہنی تبدیلی کہ کہانی کی یکسر مختلف سائیڈ نظر آنے لگی یہ سب وقت اور تجربے کی چابک سے سیکھا گیا چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ ہے جس نے بتایا کہ لازمی نہیں کہ سیدھی لائن سے جاتے رستے ہی جلد منزل تک پہنچائیں۔
اپنے گھر سے نکلے، شہر چھوڑا، انجان جگہوں پر اجنبی راہوں پر چلے اور پتہ چلا کہ دُنیا فلم کی طرح سیدھی نہیں ہے۔ تیز رفتاری سے بائیک چلانے پر لڑکی امپریس نہیں ہوتی، چلان ہو جاتا ہے۔ سُلجھے بال، اُجلی شرٹ دیکھ کر کوئی مالدار سیٹھ اپنی فیکٹری آپ کے نام نہیں کرتا انٹرویو میں ہی باہر کا رستہ دکھا دیتے ہیں۔ دُنیا کے معاملات ہی ٹیڑھے ہیں جو بچپن میں چھپائے جاتے ہیں، حقیقت سے ناآشنا رہ کر کھیلنے دیا جاتا ہے، خواب بُننے دیے جاتے ہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ جوانی جب پڑتی ہے تو رُلنا پڑتا ہے۔ لپک لپک کر بھی پیسہ کمانا شروع کریں تو بمشکل گزارا ہی ہوتا ہے کوئی نہ کوئی بل پینڈنگ رہ جاتا ہے۔
اب فلمیں تو دیکھتے ہیں ہیرو کی تن آسانیاں، ولن کی موجودگی تک رسائیاں دیکھ کر محظوظ بھی ہو لیتے ہیں مگر اب خواب نہیں دیکھتے ان کرداروں میں جینے کی چاہ نہیں کرتے۔
حقیقت کی ڈائن خواب کی گود اُجاڑ دیتی ہے۔
آگاہی ہر حسین، ملائم اور راحت اندوز خواب کو نگل کر نشانِ تلخی چھوڑ جاتی ہے۔ ری وزٹ ہمیشہ تکلیف دہ ہوتے ہیں ناسٹلجیا میں ہلکی ہلکی چبھن ہوتی ہے۔ وقت جتنا بھی خوشگوار گزرا ہو وہ حال میں تلخ یادیں ہی بن کر رہتا ہے۔ حال مستقبل سے بُرا نہیں ہو سکتا ہے یہ بات سمجھنے کے لئے ماضی کی ہر یاد کو کھنگالنا چاہیے وہ کوئی پڑھی ہوئی پرانی کہانی، فلم یا واقعے کی صورت میں ہو اُسے پڑھنا چاہیے، دیکھنا چاہیے۔ یہ ذہنی تبدیلی ماپنے کا پیمانہ ہے جس کی ریڈنگ جھوٹ نہیں بولتی۔