The Substance
دی سبسٹانس
بوڑھے جسم کو بھی بوڑھا جسم قبول نہیں بوڑھاپا اس قدر ذلیل شے ہے۔ بوڑھاپا کمزوری ہے، رسوائی ہے ہر پہلو سے کمینہ ہے۔ سر پہ اُگی سفید میلانین کی کھیتی کی حفاظت کوئی نہیں کرتا یہ کسی کے کام کی نہیں ہے۔
لرزتے ہاتھ اڑ چکا رنگ، اپنی مدت پوری کرکے ڈھلک چکی بھنویں، تھکان کے بوجھ سے جھکی ریڑھ کی ہڈی اور پچھتاؤں کی ملامت سے بھرا دماغ، زندگی کے اس نیچرل اختتام کو منٹو نے بھونڈی حرکت کہا۔
جوانی سے تنزلی، روشنی کا اندھیرے کی طرف سرکنا اور بےبسی یہ کہ ان سب کے چشم دید گواہ بنے خود کو دیکھتے رہنا کہ یہی جسم تھا جو پھرتی سے بھرا تھا، یہی وہ اعضاء تھے جو تھک کر بھی ہنستے تھے، ہارمونز پر بہار تھی۔ صبح کی خراشیں رات کی نیند زائل کرجاتی تھیں، زخم بھرنے کو ہر خلیہ سراپا مرحم تھا۔ کئی دل تنے گالوں اور چمکتے ہونٹوں کے بوسوں کے لیے ترستے مگر اب فقط ان گزرے دنوں کی یادیں ہیں اور یادوں پر بھی جھریوں کی امربیل اگی ہے۔
بوڑھاپے پہ خوفناک کمنٹری کرتی یہ فلم دیکھتے ہوئے سوچیے کہ جوانی میں کیا کچھ ہوسکتا ہے اور کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ اگر کل اٹھیں اور بدن ایک چھڑی کا سہارا مانگے تو کیسا لگے گا۔ جوانی کی آنکھ سے اپنا ہی بوڑھاپا دیکھ کر غصہ آجائے تو کس پر اتارا جائے؟
سوال اٹھتے ہیں خیال کودتے ہیں کہ بوڑھوں کو کم دوائیاں لینی چاہیے، بلڈ پریشر ہوگیا ہے تو ہونے دینا چاہیے شوگر کنٹرول کرکے کیا کر لیں گے؟ میک آپ ایک عمر کے بعد جب لٹکتی چمڑی پر نہ ٹکے تو نہیں ٹکانا چاہیے۔ مرنے میں جلدی والی تاکید نہیں مگر دیری کی ضد بھی نہیں ہونی چاہیے۔ جوانی میں اگر شہرت سمیٹی ہے تو بوڑھاپے کا چہرہ مزید بگڑا ہوا ملنے والا ہے۔ جو شہرت جوانی کی مرہون منت رہی ہو وہ بوڑھاپے میں ڈراؤنی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
باڈی ہارر کی کیٹیگری میں اس سے بھینکر فلم شاید ہی کوئی دوسری موجود ہو۔ ڈائریکٹر کوریلی فارگیٹ کا مدعے کو طول دینے کے لیے فرنچ سینما سے پکڑا شدید سے شدید ولگر ایلیمنٹ کا استعمال فلم کا خاصہ ہے۔
فلم خوبصورتی پر ملامت ہے یا بوڑھاپے پر نوحہ گری کہنا مشکل ہے دیکھنا تو بھیانک ہے۔

