Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. The Menu, Hunger Film Review

The Menu, Hunger Film Review

دا مینیو، ہنگر فلم ریویو

آپ نے کوکنگ شوز دیکھے ہیں؟ کوکنگ شوز کے پروفیشنل شیف کو کام کرتا یا کام کرواتے دیکھا ہے، برٹش شیف گورڈن رامسے کا سرخ چلاتا چہرہ میمز میں گردش کرتا ہوا تو دیکھا ہوگا۔ وہ چھوڑیں، اپنی گلی کی نکڑ پہ کھڑا دہکتے تنور میں روٹیاں پکاتا عام سوال کے جواب میں انگارے اگلتا شخص تو دیکھا ہوگا۔ یہ سب پکانے والے عمومی طور پر تپے کیوں ہوتے ہیں؟ کچن کے بند پنکھے کے نیچے دھواں دھواں بادلوں میں پسینے سے شرابور تیز آگ میں ترکاری کو تڑکا لگاتی یا چاولوں کا دم توڑتی ماں کو عین اس موقع پر جپھی ڈال کر دیکھیں لگ پتہ جائے گا کہ ممتا کی تپش کیا ہوتی ہے۔

کھانا ضرورت ہے پکانا آرٹ ہے اور آرٹ میں پرفیکشن کا عمل پہلے دل لگی پھر دل جمعی اور آخر میں عرق ریزی مانگتا ہے جس کے دوران باہر کا کوئی غیر ضروری اور کبھی تو ضروری عنصر بھی قابل برداشت نہیں۔ کسی بھی لذیذ کھانے کی ریسیپی میں سب سے کلیدی اجزاء فوکس ہے لذت کا سکیل بڑھتا جائے گا اگر پکانے والا آگ جلانے سے دہکتے برتن کو تیل سے تر کرنے اور پھر پکے ہوئے کو پیش کرنے تک کے سب عوامل میں ذرا سا بھی فوکس کا یہ جز کم نہیں کرے گا۔

پچھلے سال کے اختتامی مہینے میں فلم "دا مینیو" ریلیز ہوئی۔ یہ فلم فوڈ بیس تھرلر تھی، اپنے کرافٹ میں بیسٹ ایک سائیکو شیف کا اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک جزیرے پر شہر کے "معزز" ترین لوگوں کو کھانے کی میز پر یکجاں کرنا اور پھر کسی کو دوڑا کے کسی کو بٹھا کے مگر سب کو ایک بار کھلا کر موت کے گھاٹ اتارنے کا پلاٹ دلچسپ تھا، مگر فلم ہر کسی کے کھانے اور لبھانے کی ڈش نہیں تھی۔

الجھا مبہم تھیم، سوشل کمنٹری، ماڈرن سوسائٹی میں کنزیومر کسٹمر ریلیشن کے بظار باہمی مگر حقیقت میں غیر فطری اور غیر ضروری تعلق میں تذبذب جیسے ایلیمنٹ کو کھانے کے ذریعے علامتی طور پر دکھایا گیا، تھیم جسے سمجھ آیا اسے یہ پسند آئی باقی فلم آئی گئی ہوگئی۔ اس سال اپریل میں نیٹ فلکس پروڈکشن کے بینر تلے تھائی لینڈ فلم انڈسٹری کی فلم "ہنگر" ریلیز ہوئی۔ تھائی لینڈ کے ہر شہر کی چھوٹی بڑی گلیوں میں کھانا محض پکایا اور کھایا نہیں جاتا بلکہ فوڈ بنانے سے جچانے اور پیٹ تک اتارنے تک سلیبریٹ کیا جاتا ہے۔ تھائی فوڈ کی اپنی الگ دنیا ہے جو سب سے جدا گانہ ہے۔

"ہنگری" فلم کا پلاٹ ایک ایسے ماسٹر شیف سے شروع ہوتا ہے جو اپنے کام میں خدا ہے، جو بنانا جانتا ہے جو سجانا جانتا ہے پیش کرنا تو اس پر ختم ہے۔ وہ امیروں کے لیے پکاتا ہے، اور صرف امیروں کے لیے ہی پکاتا ہے۔ وہ اس مقام تک پہنچا اور اس اونچائی تک پہنچا کہ کوئی دوسرا اسے چھو نہیں سکتا۔ اونچائی چڑھتے ہوئے درجہ حرارت گر جاتا ہے، ہوا میں سرد پن آ جاتا ہے ٹھیک اسی اونچائی پر چڑھے اس شیف پر بھی پاؤں سے سر تک سرد پن چڑھا ہے، وہ اپنے سے نیچے کام کرتے جونیئر شیف کا آرمی جنرل ہے، وہ جب آتا ہے تو سب کام چھوڑ کر دو قدم پیچھے لیے ہاتھ باندھے پتھر ہو جاتے ہیں۔

بنکاک کے پسماندہ علاقے کے ایک ڈھابے میں نوڈلز پکاتی ایک لڑکی کسی طرح اس روتھ لیس شیف کے کچن میں اس سے سیکھنے آ جاتی ہے۔ یہاں سے فلم کے پلاٹ کا گراف جو پہلے اوپر تھا مزید اوپر چڑھتا ہے، آرمی جنرل شیف کے مقابل یہ لڑکی بھرپور ٹف ٹائم ہے، یہ بات شیف بھی جانتا ہے کہ لڑکی میں پورے اسٹاف سے زیادہ مہارت ہے۔

فلم آگے سرکتی ہے، شیف اور لڑکی کی ٹھن جاتی ہے، لڑکی شیف کے امراء کے لیے کام کرنے کے ضابطہ اخلاق پر سوال اٹھاتی ہے، وہ شیف کی پرفیکشن کی معتبر ہے مگر وہ شیف کی بیک اسٹوی سے باغی ہے جس میں شیف کا طبقاتی جبر کے ہاتھوں انتقاماً خود کو اس اونچائی پر لانا جہاں اس کی موجودگی اور اس کے کھانے کی مہک ہر امیرِ محفل کی بھوک بن جائے اس پروسیس میں شیف کا خود وہ بن جانا جس کے ردعمل سے وہ دل شکستہ ہوا تھا۔

وہ امیروں کی محفل کا کلاؤن ہے، جس نے چہرے پہ ماسک کی بجائے کمر پہ پیش بند باندھا ہوا ہے، جو قلابازی کی بجائے کھانے کا کرتب دکھا کر سمجھتا ہے کہ وہ امیروں کی ضرورت ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتا کہ ضرورت کے اس وجود نے بھی امیر کی دولت کے بطن سے ہی جنم لیا ہے۔ لڑکی پکانے کا ڈھنگ سیکھ جاتی ہے، امیروں کو پیش کرنے کا رکھ رکھاؤ بھی آ جاتا ہے اور یوں اس کے اور ماسٹر شیف کے مابین پروفیشنل جیلسی کا ابال بڑھتا ہے شیف کی ڈکٹیٹر شپ میں دراڑ آتی ہے۔

کھانا غریب کے لیے بھوک مٹانے کا ذریعہ امیر کے لیے سوشل سیٹس دکھانے کا ذریعہ ہے۔ کھانا اگر غریب کی بھوک مٹاتا ہے تو امیر کی بھوک میں اضافہ کرتا ہے۔ ہر فائیو اسٹار ریستوران کا مینیو، لائیو اوپن کچن میں سفید ایپرن پہنے تیز آگ پر کڑاھی گھما کر کرتب دکھاتا شیف جس کا مقصد تو وہی ہے جو قدیم دور سے چلتا آ رہا یعنی کھانا بھوک مٹانا اور پکانے کا ذریعہ وہی قدیم آگ ہے مگر انسانوں کے ایک گروہ کے پاس ریسورسز کی فراوانی نے وہ اکتاہٹ پیدا کی کہ جس کے نتیجے میں بھوک کی اس ضرورت نے بھیس بدل کر کرتب کا روپ دھارا اور دنیا بھر کے مینیوز میں پرانی آگ پر پکایا نیا کھانا مشکل لفظوں میں درج ہونے لگا۔

سوشل سیٹس دکھانے کا سب سے مہنگا طریقہ کھانا نہیں تھا، مگر کیا گیا۔ آلو وہی، چاول وہی، میدہ و انڈے وہی اور ان کی تاثیر بھی وہی مگر چمکتی بلڈنگ کے درمیان میں لگے فوارے کے سامنے بیٹھ کر چینی کے برتن میں ڈلتے ہی یہ سب اجزاء پہلے اپنے نام سے ہٹے اور پھر دام سے۔ یہ سب دیکھ کر خیال کی تیز لہر اٹھی کہ شعور نے انسان کو آخر کیا سونپا؟ فلم شروع سے درمیان اور اختتام سے ذرا پہلے دلچسپ رہے گی مگر اختتام کے بعد لگے گا کہ شاید کچھ دیکھا ہی نہیں۔

گوناگوں رنگوں کے سپیکٹرم اور جمالیاتی حس کو تسکین مہیا کرتے کھانوں کی ترکیب و ترتیب سے لطف کی مکمل کشیدگی کم از کم بیالیس انچ اسکرین پر زیرو فٹ کے ریڈیس پہ پیزے کی موجودگی فلم کو دیکھنے کی متقاضی ہے۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi