Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Saneha Islamia University Bahawalpur

Saneha Islamia University Bahawalpur

سانحہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور

جنوبی پنجاب کی کسی بھی یونیورسٹی کو یونیورسٹی کہنا، ماننا اور تعلیم حاصل کرنا جہالت ہے، یہاں سے فارغ التحصیل اگر کسی طرح جاب پر لگ گیا ہے تو غنیمت کی بات ہے یا سفارش کا شاخسانہ ہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں ہر بھرتی چاہے وہ سیکیورٹی ملازم، کلرک، پروفیسر اور یہاں تک کے وائس چانسلر تک سفارش تعلق داری اور روپے کے طاقت پر ہوتی ہے اور پھر یہ بھرتی ہوئے لوگ اپنے پیشے سے کبھی مخلص نہیں رہتے کرپشن کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔

اسلامیہ یونیورسٹی کا چیف سکیورٹی آفیسر اعجاز شاہ چند دن پہلے قانون کی گرفت میں کچھ ایسی حالت میں آیا کہ دیکھنے والے دنگ رہ گئے، سننے والے پریشان ہوگئے۔

ریٹائرڈ فوجی آفیسر اعجاز شاہ کون ہے؟ کہاں سے آیا اور یونیورسٹی میں سکیورٹی کا انچارج کس بنا پر بنا یہ موضوع زیرِ بحث نہیں لاتے کیونکہ وہ اُس ادارے کا ریٹائرڈ آفیسر تھا جو مر کے بھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے جنہیں مسلسل مراعات اور نوکریاں ملتی رہتی ہیں جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد کسی سکیورٹی عہدے پر براجمان ہونے کے لیے قابلیت کی بجائے سی وی میں ڈگری اور تجربے کے خانے میں خاکی وردی لکھنا ہی کافی ہوتا ہے۔

سید اعجاز شاہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اس گندے تھیٹر کا ایک غلیظ کردار ہے جو پکڑا گیا ہے، باقی کردار ابھی پرفارم کر رہے ہیں اور ان کی پرفارمنس ہر دیکھنے والے پر قہر بن کر ٹوٹ رہی ہے۔

پنجاب کی چھوٹی چھوٹی تحصیلوں اور قصبوں سے بڑے شہر کی یونیورسٹی میں چادروں، عبایوں، دعاؤں نصیحتوں اور تنبیہات سے شہر کی یونیورسٹی میں بھیجی لڑکیوں کی تعلیم آج کے دور میں بھی ضروری نہیں بلکہ مجبوری سمجھی جاتی ہے، فریج ٹی وی اور اے سی کے ساتھ جہیز میں لڑکی ڈگری بھی لائے یہ اچھے رشتے کی شرط ہے جس کو پورا کرنے کے لیے والدین سر دھڑ کی بازی لگا کر بچی کو ہر صورت یونیورسٹی بھیجتے ہیں۔

ماؤں کے زیور، ابا کا سکوٹر بیچا جاتا ہے، قرض کی رقم اٹھائی جاتی ہے اور لڑکی یا لڑکا یونیورسٹی کے کیمپس میں پہنچائے جاتے ہیں، اور ایسی یونیورسٹی جس میں سکیورٹی اہلکار موبائلوں کے کیمرے چھپائے ڈالوں پر گشت کرتے کہیں گھاس پر ساتھ بیٹھے لڑکا اور لڑکی کی پوشیدگی سے تصاویر بناتے ہیں پھر انہیں پکڑتے ہیں اور سکیورٹی آفیسر کے کمرے میں لے جاتے ہیں جہاں یہ معاملہ گھناؤنا روپ دھار لیتا ہے۔

ایسی یونیورسٹی جس میں انیسویں گریڈ کا پروفیسر اپنے کمرے سے اٹھ کر لیکچر لینے نہیں جاتا، اس نے اپنے نیچے ایک اسسٹنٹ بھرتی کیا ہے جو اس کی جگہ اس کے لیکچرر لیتا ہے، وہ انا، ہوس اور کرپشن میں ڈوبا صبح سے شام تک اپنے کمرے میں بیٹھا تعلیم کے علاوہ ہر بات موضوع بحث لاتا ہے۔

ایک ایسی یونیورسٹی جس میں کوئی بھرتی باہر سے نہیں ہوتی، وہ طالب علم جو طالب علمی میں پروفیسروں کے لیے چائے اچھی بنا لیتے تھے ان کو یونیورسٹی میں مستقل پروفیسری کی ملازمت پر رکھ لیا جاتا ہے، وہ لڑکیاں جو بطور طالب علم 'تعاون' کرتی رہیں انہیں بھی کسی ڈپارٹمنٹ کا چارج دے دیا جاتا ہے یوں یہ چائے اور تعاون کی بنا پر بھرتی ہوئے لوگ حکومتی خزانے پر بوجھ بن کر تعلیمی نظام کے ساتھ لڈو کھیلنے لگتے ہیں۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا موجود وائس چانسلر اطہر محمود ایک ایسا انسان جس نے اپنے قصیدے لکھنے کے لیے شاعروں اور ادیبوں کو نوکریاں دیں، صحافت کے ڈپارٹمنٹ میں اس صحافی کو پروفیسر لگایا جو اس کا نام جھک کر لیتا، جو اطہر محمود کی خبر دیتے ہوئے عقیدت کا مجسم بن جاتا۔

اطہر محمود نے یونیورسٹی میں بے جا غیر ضروری ڈپارٹمنٹ کھولے اور وہاں ان بچوں کے ایڈمیشن ہوئے جو کالج فیل تھے مگر فیس بھر سکتے تھے، اس شخص نے اسلامیہ یونیورسٹی کے آڈیٹوریم کو اپنی ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کیا، جیسے یہ ذات سے کراچی کا میمن نہ ہو بلکہ روم کا کوئی شہنشاہ ہو۔

اس نے اپنے اوپر کتابیں لکھوائیں، کالم چھپوائے تصاویر لگوائیں بل بورڈ لٹکائے، ٹی وی میں پرائم ٹائم کے شوز میں انٹرویو دیے، یہ شخص جو ماضی میں خواجہ فرید یونیورسٹی سے مالی کرپشن کے چارجز بھگت کر اسلامیہ یونیورسٹی میں آیا اور جہاں اس نے اپنی ہی کرپشن کے پچھلے سبھی ریکارڈ توڑ دیے اور زرا تماشا نہ ہوا۔

مگر اب بات نکلی ہے، اعجاز شاہ اس کا ہی مہرا ہے جو پکڑا گیا جس پر درجنوں لڑکیوں سے جنسی استحصال اور منشیات بیچنے اور خریدنے کے الزام ہیں جس کے فون کا مواد کسی پورن سائٹ کو ٹکر دے رہا ہے یہ وہ کردار ہیں جو مہذب بن کر اے سی والے کمروں میں بیٹھتے ہیں، جنہیں یونیورسٹی نے یونیورسٹی کے اندر ہی فارم ہاؤس دے رکھے ہیں، جنہیں کسی بھی لڑکا لڑکی کی کسی بھی حالت میں تصاویر بنانے کی اجازت ہے۔

یہ خبر نکلی ہے تو بچیوں کے ماں باپ ڈر گئے ہیں سہمے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ بچیوں کو چھٹیاں ختم ہونے کے بعد بس اڈے پر یونیورسٹی کے لیے چھوڑنے جایا جائے یا نہیں۔

قصوروار اگر وہ لڑکیاں ہیں جو نمبروں، سمسٹر میں پوزیشن اور برانڈڈ کپڑوں کے لیے سکیورٹی آفیسر کی کالے شیشوں والی گاڑی کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھ گئیں تو بھی سکیورٹی کے محافظ سید اعجاز شاہ کا جرم کم نہیں ہوتا جس نے گرلز وارڈن کو ساتھ ملا کر ان لڑکیوں کے لئے وہ راہ ہموار کی جس پر سے گزر کر وہ اس تک باآسانی پہنچ سکیں۔

پانچ سو لڑکیاں جو رضامندی سے بھی یہ کام کرتی رہی وہ پوری یونیورسٹی میں پڑھنے والی لڑکیوں کا کریکٹر ڈیسائڈ کرسکتی ہیں؟ کیا اس سے سکیورتی آفیسر اعجاز شاہ، وائس چانسلر اطہر محمود اور دیگر پروفیسر جو بچوں کے تھیسز پاس کروانے کے لیے رشوت لیتے رہے وہ بری الزمہ ہوجاتے ہیں؟

اسلامیہ یونیورسٹی سمیت جنوبی پنجاب کی دیگر تمام یونیورسٹیاں تعلیمی قابلیت اور میرٹ پر ایک بدنما داغ ہیں جسے دہلنے سوکھنے اور جڑ سے ختم ہونے تک بچوں کو آن لائن تعلیم کی طرف لائیں انہیں یونیورسٹی بھیجنا مقصود ہو تو اس قابل بنے یا انہیں اس قابل بنائیں کے وہ کسی اچھی یونیورسٹی میں جانے کے اہل ہوں۔

یاد رکھیں، اعجاز شاہ ایک شخص نہیں یہ مزاج ہے طبیعت ہے اور وہ رویہ ہے جو نہ صرف یونیورسٹی بلکہ ہر ادارے ہر مقام پر اسی طرح کار فرما ہے جو بس ایک پولیس ریڈ کی دوری پر ہے۔

زندگی کے کسی مقام پر جب معاملات اسٹیبل ہوں تو ہر اس پروفیسر کو نام لے کر اکسپوز کریں جو اپنے عہدے سے وفادار نہیں تھا، جو لیکچر نہیں لیتا تھا اگر لیتا تھا تو پڑھاتا نہیں تھا اگر پڑھاتا تھا تو غلط پڑھاتا تھا جو رشوت لیتا تھا جو استاد کہلانے کے لائق نہیں تھا یہ سب کہنے کا موقع اور حالات تب نہیں تھے مگر اب ہیں تو ایسے کرداروں کا نام لیجیے کیونکہ وہ اب بھی اپنی اسی سیٹ پر بیٹھے کسی نئے بیچ کے ساتھ پرانا رویہ دوہرا رہے ہیں۔

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan