Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Sondas Jameel/
  4. Origin Of Species

Origin Of Species

اوریجن آف اسپیشز

دنیا کا رخ موڑ دینے والی کتاب اوریجن آف اسپیشز لکھنے سے پہلے چارلس ڈارون اپنی ہی تحقیق سے خوفزدہ ہوگیا۔ سچ سامنے تھا، جزائر پر بکھرے حقائق کے فوسلز چیخ کر بتا رہے تھے کہ انسان، پودوں اور جانوروں کے وجود کے بننے کی بتائی سمجھائی اور مانی گئی اب تک کی تمام سچائیاں جھوٹ ہیں، ڈارون تو ایسا دھیما تھا کہ وہ اسے جھوٹ بھی نہیں سمجھتا تھا بلکہ اسے انسانی غلط فہمی لکھتا تھا۔

وہ اوریجن آف اسپیشز کا مسودہ پندرہ سال پہلے ہی لکھ کر اپنی دراز میں بند کر چکا تھا، مگر وہ اپنی بیوی کے مذہبی جزبات کو ٹھیس نہ پہنچانے کی غرض سے اب تک اسے شائع نہیں کروا سکا تھا اور پھر ایک دن اینی بیمار پڑ گئی۔

اینی، ڈارون کی آنکھ کا تارا ڈارون کی لاڈلی اینی، ڈارون کی داڑھی کھینچ کر کھیلنے والی اینی، ڈارون کی سب سے چھوٹی بیٹی اینی بستر پر جا لگی۔ ڈارون بطور باپ ڈارون بطور محقق پر عاجز آگیا۔ بیوی کے کہنے پر ڈارون اینی کو اٹھائے قصبے کے چرچ میں لے آیا بیماری سے لاغر اینی کی صحتیابی کی بھیک مانگتے خدا کے آگے رو پڑا۔

ڈارون خدا کے آگے رو پڑا۔۔

اینی کی ایک تندرست مسکراہٹ ڈارون کو ہمیشہ کے لیے خدا کا گرویدہ اور چرچ کا خادم بنا سکتی تھی وہ اینی کے لیے اپنا علم اپنی تحقیق اپنی اوریجن آف اسپیشز کا مسودہ سب ضائع کرسکتا تھا مگر خدا جو اگر موجود بھی تھا تو اس لمحے ڈارون سے غافل رہا اور اینی نے ڈارون کی بانہوں میں دم توڑ دیا ڈارون بکھر گیا بوکھلا گیا۔ ڈارون کے ہاں اولاد اور بھی تھی مگر اینی کی بات اور تھی۔ ڈارون آخری لمحوں تک خدا سے اپنی جزباتی وابستگی قائم رکھنے کی کوشش میں رہا مگر آفاقی سچائی سے ہار گیا۔

ڈارون کی یہ کیفیت ہر اس انسان پر گزرتی ہے جو خدا سے اپنی جزباتی وابستگی کے ہاتھوں ہارنے سے پہلے آخری لمحوں میں اسے ماننے کی کوشش میں خود کا سینہ جلاتا ہے خود کو کوستا ہے خدا کی جانب سے دل صاف رکھنے کا ہر جتن کرتا ہے وہ ہر سچائی کو ہر لحاظ سے ردّ کرنے کی کوششیں کرتا ہے، کچھ کامیاب بھی رہتے ہیں مگر یہ وہ سچائی ہے جس کا شبہ بھی پڑ جائے تو انسان کے اندر بے چینی کا نہ تھمنے والا تلاطم برپا ہوجاتا ہے۔

خدا کو چھوڑنے سے پہلے کا تذبذب تو الگ مگر خدا کو چھوڑنے کے بعد بھی انسان اپنے پرانے یقین کی یاد سے پیچھا نہیں چھوڑا سکتا، کچھ تو دور سے چل کر اس کی پسندیدہ بارگاہ میں صلح کی نیت سے آجاتے ہیں، جیسے خدا سے کئی سالوں سے روٹھا ایک شخص اپنی نوزائیدہ بیٹی کو لیے خانہ کعبہ آیا اور دامن آنسوؤں سے بھر کے مخاطب ہوا کہ اے اللہ! اگر تو ہے تو مجھے اس کشمکش سے نکال دے، دیکھ میں صلح کی نیت سے تیری تلاش میں تیرے در پر آیا ہوں، ہاتھ اٹھائے سر جھکائے، مجھے کلئیر کر دے اپنی تجلی دکھا اشارہ دے لیکن اپنی آواز سن کر اسے کچھ وقت بعد ایسا لگا جیسے وہ ہندو ہے اور ایک بت کے سامنے گڑگڑا رہا ہوں اور اس کی آواز پلٹ کر اسی کو سنائی دے رہی ہے، یہاں سے صلح ممکن نہیں۔

تجربات مختلف ہوسکتے ہیں اور بہت سارے ہوسکتے ہیں کوئی ہر سچائی ہر ریشنل پہلو کو پسِ پشت ڈال کر جزبات سے مجبور کہتے ہیں کہ ہمیں خدا کی ضرورت ہے اشد ضرورت! کیسے اُس کا انکار کر دیں انکار کرکے کیا حاصل ہم سے ہمارا سہارا ہی چھن جانا، انکار سے ہم نے اپنی ذات میں کتنے اکیلے اور بوجھل ہوجانا ہے، یہ جزبات کی الگ قسم ہے، یہاں صلح کی راہ نکل جاتی۔

انسان کوئی شے تب تک نہیں چھوڑتا جب تک اسے بہتر کوئی دوسری ملتی نظر نہ آئے اسی لیے خدا چھوڑنے سے پہلے انسان اس سے بہتر امید کا زریعہ ڈھونڈتا ہے، اچانک خدا کو نہیں چھوڑتا اچانک چھوڑ دینا یہ اس کے بس میں ہی نہیں ہوتا۔

خدا سے ضد لگائے کسی اشارے اور تجلی کے منتظر یہ بات نہیں سمجھتے کہ موسی کا خدا اور ہے اور عام بندے کا خدا اور۔

Check Also

Falasteeni Be Rozgari Bharat Ke Liye Kitni Faida Mand?

By Wusat Ullah Khan