Nusrat Fateh Ali Khan Aur Jeff Buckley
نصرت فرتح علی خان اور جیف بکلی
اوپر نیچے دھڑام سے گرتی لہروں کی طرح طبلے کی آواز بیشمار ہاتھوں سے بجتی تالیوں کی تال سے ہم آہنگ ہوئی جاتی تھی، ہارمونیم جو قدیم دھنوں کے گرد رقص کناں تھا جیسے پروانے شمع کے گرد منڈلاتے ہوئے، پھر اچانک ایک دم سے دس آوازیں یوں ایک ساتھ بلند ہوئیں جیسے زمین پہ بیٹھے بغلوں کا جھنڈ آہٹ کے شبہ پر آسمان کی طرف لپک جائے۔
پھر آئی نُصرت فتح علی خان کی آواز۔ آدھے بدھا، آدھے شیطان، آدھے سر پھرے فرشتے کی وہ آواز۔۔ مخملی آگ کی طرح لگی، منھ زور چاروں اور۔
ہر لفظ، ہر تلفظ ہر جنبش نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مجھے اردو کا ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا، پھر بھی اس آواز نے مجھے اس کہانی سے جوڑ دیا جو میری نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے حواس مکمل طور پر جم گئے تھے تاکہ میں محسوس کر سکوں کہ کس طرح ایک کے بعد ایک دھنوں کی لہریں ٹوٹ رہی ہیں، کہاں سے جڑ رہی ہیں۔ ہر سطر کو کورس میں شامل مردوں نے دہرایا، پھر سولو گلوکاروں نے دوبارہ گایا اور پھر نُصرت نے پوری لائن کو اپنے بارودی لہجے سے آگ لگا دی۔
"سا، ری، گا، ما، پا، دھا، نی" کو کبھی بے ترتیبی اور کبھی ترتیب کے ساتھ اپنی دیوانہ وار گنگناہٹ میں بدلتے رہے۔ مصرعہ جب کہیں نہ کہیں عروج پر پہنچتا، تو نُصرت کی بلند ہوتی، آواز ایک ایسی دھن بناتی جو میرے دل کو اڑنے کی خواہش دیتی۔ یہ سلسلہ پندرہ منٹ تک چلتا رہا۔ میں نے اپنا دل کھو دیا تھا۔
میرے روم میٹ نے مجھے واپس زمین پر اتارتے ہوئے کہا، "نُصرت۔۔ فَتَح۔۔ عَلی۔۔ خاں" اور میں ایسے مدہوش کھڑا جیسے کہ صدیوں پرانی شراب اپنے معدے میں انڈیل لی ہو۔
مجھے اپنے سینے میں ایڈرینالین کا ایک جوش محسوس ہوا، جیسے میں کسی چٹان کے کنارے پر ہوں، یہ سوچ رہا ہوں کہ میں کب کودوں گا اور سمندر مجھے کب اور کیسے پکڑے گا یہ سوال جس کا جواب مجھے تب تک نہیں مل سکتا تھا جب تک میں پہلی چھلانگ کا تجربہ نہیں کرتا۔
نیو یارک کے جیف بکلی اور لائل پور کے نصرت فتح علی خان کے درمیان یہ تعلق ہر طرح سے عجیب تھا۔ دونوں کی زبان مختلف، عمر میں بڑا فرق، کلچرل دیواریں اور میوزک یونرا میں فرق مگر یہ رشتہ قائم ہوا۔ نصرت کی آواز نے بکلی کو مرنے سے بچایا اور بکلی نے اپنی آواز میں جب نصرت کو گایا تو واقعی لگا کہ وہ اس آواز کا کتنی شدت اور عقیدت سے احسان مند ہے۔
جیف بکلی اپنے دور میں نصرت جیسا مشہور نہیں تھا۔ اس کی باپ سے رنجش رہی وہ مین اسٹریم کا سنگر نہیں مانا گیا، وہ کلبز میں گاتا۔ دو چار دن بینڈ کے ساتھ بھی گایا پھر سولو سنگر بن گیا۔ وہ مذہب اور کلچر سے ہٹا ہوا انسان رہا وہ زندگی کو بوجھ کی طرح دیکھتا کہ یہ آن پڑی ہے اب لے کر چلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایسی روح کسی انجان ہاتھ کی تلاش میں رہتی ہے، بکلی بھی تلاش میں تھا اور پھر نصرت آئی۔
جیف بکلی نے نصرت کو اپنا ایلوس پریسلے کہا۔ جیف بکلی نے نصرت کو اپنی ڈارک فیز میں مرنے سے بچانے والا مسیحا کہا۔ بکلی نے نصرت کو جنون کی حد تک فالو کیا۔ یہ ایک عجیب رشتہ تھا، جس کی انتہا 1993 میں ایک گمنام کیفے میں چند محدود سامعین کی موجودگی میں دیکھنے کو ملی، جہاں کسی نے نصرت کا نام اچھالا اور بکلی انگلش گانے بجاتا ہوا ٹھہر گیا۔
اس نے گٹار کو ٹیون کیا نصرت کو اپنا ایلوس بتایا اور مان سے بتایا کہ وہ نصرت کا وہ نام بھی جانتا ہے جس سے بچپن میں اسے پکارتے تھے۔ بکلی نے ٹھیٹ نصرت کے انداز میں آلاپ لیا، آڈینس سمجھ نہیں پائی اور ہنسنے لگی۔ بکلی جانتا تھا وہ کیا کر رہا ہے۔ بکلی کا گٹار ہارمونیم بن چکا تھا اور گلا انگلش کے الفاظ ترک کرکے اردو پر اتر چکا تھا۔
"ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا" یہ لائن ایلوس پریسلے کے گلے سے نکلتی تصور کر سکتے ہیں؟ نہیں! مگر بکلی نے یہ پوری غزل گائی اور ایسے گائی کہ سننے والے تلفظ کی کوتاہیاں بھول گئے اور بکلی کی شدت اور عقیدت بھری اردو نے سماع باندھ دیا۔
اس دور میں جب گوگل موجود نہیں اور زبان سیکھنے کے سب زریعے کھٹن ہیں ایسے میں بکلی نے نجانے کتنی بار نصرت کی یہ قوالی سن کر لیرکس کاغذ پر لکھے ہوں گے انہیں یاد کیا ہوگا تلفظ کی ادائیگی پر، ٹون سیٹ کرتے ہوئے کتنے گھنٹے خرچ کیے ہوں گے۔ جنون! عقیدت! محبت تو کچھ بھی نہیں مرے دوست!
یہ بکلی کا نصرت کو ٹریبیوٹ تھا وہ شکریہ تھا جو کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا کہ یہ کیسا شخص ہے اور یہ کیسا رشتہ ہے مگر سُر اور آواز کی کوئی قید نہیں بکلی اور نصرت کے اس رشتے نے یہ ثابت کردیا۔
بکلی نصرت سے بھی ملا دونوں کے درمیان کیا بات ہوئی کوئی نہیں جانتا۔ نہ نصرت کو اتنی انگلش آتی تھی نہ بکلی کو اتنی اُردو کے بکلی نصرت کو وہ سب بتا سکتا جو اس نے اس رات کمرے کے باہر نصرت کی آواز سن کر محسوس کیا۔ مگر یہ بتانے کو لفظ کہاں لگے ہوں گے عقیدت اور محبت اظہار کے لیے زبان کا سہارا چھوڑ دیتی ہے آنکھ کا رستہ اختیار کرتی ہے۔ اس ملاقات میں بھی بکلی سر تاپیر نصرت کی عقیدت سے بھرا خاموش بیٹھا نصرت کو تکتا رہا، ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پیتا رہا۔

