Mulk Chorna Asaan Nahi
ملک چھوڑنا آسان نہیں
ملک چھوڑنا آسان نہیں۔ گھر والوں سے بنتی ہے یا نہیں، والدین سے محبت ہے یا نہیں، بہن بھائیوں سے جذباتی الفت ہے یا نہیں، بےتکلف دوستیاں ہیں یا نہیں، یہاں کے کھانے پسند ہیں یا نہیں، اپنے شہر سے لگاؤ ہے یا نہیں؟ انفرادی طور پر ان سب معاملات، ترجیحات اور ضروریات سے ہٹ کر بھی اپنا دیس، اپنا گھر، اپنے دوست، اپنا شہر چھوڑ کر بالکل نئی جگہ، نئے لوگ اور نئے شہر میں کئی سمندر، کئی شہر، کئی ملک چھوڑ کر دور دراز انجان زمین پر آ کے رہنے لگ جانا بھلے جتنا بھی آسان لگتا ہو مگر ہے نہیں۔
حضور پر مصائب آئے، مکہ چھوڑنا پڑا۔ ہجرت ضروری ہوگئی، اور جب مکہ کی گلیوں کو چھوڑنے کا وقت آیا تو کیا کیا نہ یاد آیا، ہجرت کا دکھ اور مکہ سے والہانہ محبت کا بیان کچھ ان الفاظ میں کیا کہ
"اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے، تو مجھے کس قدر محبوب ہے، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔ "
اس روایت کی تصدیق کا پہلو ایک طرف مگر یہ ہر اس انسان کے جذبات کی ترجمانی ہے جو اپنا گھر، اپنا شہر، اپنے لوگ، اپنا کمفرٹ زون چھوڑ کر پرائے لوگوں اور پرائی جگہ پر جا رہا ہو۔ وطن کو ترک کرنا نفس پر نہایت گراں ہوتا ہے۔ حب الوطنی کا باب پڑھانے سے دلوں میں نہیں بستا، یاد نہیں ہوتا مگر یہ پہلو تب ذہن نشین ہوتا ہے جب وطن سے رخصتی کا لمحہ سامنے آتا ہے، انسان چونک جاتا ہے کہ اپنا شہر، اپنا ملک چھوڑنے کا دکھ بھی اس قدر دلسوز ہو سکتا ہے۔
ہجرت بھیانک مجبوری ہے۔ یہ کسی بھی صورت میں درپیش ہو سکتی ہے، اپنی جگہ پر حالات شدید نامساعد ہو جاتے، اپنے لوگ اپنے نہیں لگتے، زندگی تنگ و تاریک نظر آنے لگتی ہے، مستقبل ڈراتا ہے، حال بےحال ہوتا ہے، کوئی تعلیم کے لیے ہجرت کرتا ہے، کوئی تنگ دستی سے مجبور ہو کر نکلتا ہے، کوئی اپنے دیس کو چلانے والوں کی بےرخی و بےرحمی سے ڈر کر بھاگ نکلتا ہے، کوئی بیٹی دور دراز پردیسی کے ساتھ بیاہی جاتی ہے یہ ہجرت کبھی بھی من چاہی نہیں ہوتی۔ اپنے شہر، اپنے گھر، اپنے دوستوں میں سب ٹھیک چل رہا ہو، پیٹ بھر رہا ہو، راشن آ رہا ہو تو کون ہجرت کا عذاب سر لینے کا سوچے گا؟
پورے ملک سے محبت اور الفت پیدا ہونا مشکل اور ناممکن سی بات ہو سکتی ہے مگر اپنے شہر، اپنے گھر، اپنی گلی، گلی سے ملحقہ چوک، چوراہے، بازار سے مانوسیت دھکے سے ہو جاتی ہے۔ اپنے شہر میں آدمی کی جیب میں پیسے نہ بھی ہوں تو تنگ دستی میں آوارگی خوفزدہ نہیں کرتی کیونکہ ذہن کو معلوم ہے کہ جو بھی ہو جائے، کتنا ہی برا ہو جائے چند فاصلوں کی دوری پر اسی شہر کی ایک گلی میں ایک چھت ہے، ایک گھر ہے جہاں وہ تھک کر بغیر سوچے، بغیر ڈرے چلا جائے گا۔
پردیس چھوڑیے۔ یہ تجربہ اپنا شہر چھوڑ کر کسی انجان شہر میں جا کر ہی کر لیجیے جہاں کوئی چہرہ مانوس نہیں، کوئی سڑک یاد نہیں تھک کر لوٹنے کو کوئی بےتکلف چھت نہیں۔ پردیس میں رہنے والے بےشک وہاں کتنے ہی سیٹل ہو جائیں، بچے ہو جائیں، بچوں کے بچے ہو جائیں مگر اپنے آبائی شہر کے اس گھر کی کھینچ سینے میں ناسٹلجیا کی چبھن کے ساتھ آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
دیس چلانے والے آئے روز دیس چھوڑنے کی نئی وجوہات دیتے چلے جا رہے ہیں، مجبور کر رہے ہیں کہ وہ سب چھوڑا جائے جو چھوڑنے کا نہیں، وہ سب کیا جائے جو کرنے کا نہیں۔ حکومت مکینوں پر ہجرتیں مسلط کر رہی ہے۔ بوڑھے والدین کے جوان سہارے دبئی کے مالوں اور پرخطر سڑکوں پر روزی کی خاطر گھر کا کھانا اور سکھ چھوڑ خاک چھانتے ہوئے عمریں گنوانے پر مجبور ہیں کیوں ہیں؟
یہ اپنی مرضی سے نہیں گئے ان کا دیس نکالا ہوا سیاسی لیڈروں نے ملکی خداؤں نے مل کر روزی کے مواقعے چھینے، اگر روزی دی بھی تو اجرت کاٹ کر تھمائی، انہیں ملک بدر کیا گیا، انہیں ان پڑھ رکھا گیا، بھوک دی گئی، اور روٹی کسی انجان ملک میں زیر تعمیر عمارت کی اینٹوں میں چھپا دی گئی جہاں مٹی میں یہ جوان ہاتھ روٹی ڈھونڈتے، اچھے دنوں کی چاہ میں، اپنے شہر کی راہ میں، جبیں پر بوڑھے لبوں کے بوسوں کی امید میں نجانے کتنے انجان شہروں میں نئی عمارتیں بناتے چلے گئے، کئی شہر ان ملک بدر ہجرتیوں کی لو سے رنگین و روشن ہوتے چلے گئے اور اس بیچ مقام ماتم و الم یہ ہے کہ ہجرت رک نہیں رہی یہ کئی شہروں سے اس کے مکینوں کو چھین کر کئی نئے شہروں کی روشنی کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔