Mausam Aur Nostalgia
موسم اور ناسٹلجیا
موسموں سے لگاؤ ہونا نہ ہونا انہیں محسوس کرنا نہ کرنا، کسی موسم کے آنے کا انتظار کرنا یا جانے کی خبر رکھنا نہ رکھنا یہ ہر انسان کی اپنی طبیعت پر منحصر ہے۔ بچے موسموں کا دھیان نہیں رکھتے، والدین ان کے لیے یہ کام کر دیتے ہیں، جوانی میں موسموں کی پہچان ہوتی ہے پرواہ نہیں ہوتی، ادھیڑ عمر میں داخل ہوتے ہوتے موسم دھیان میں آنے لگتے ہیں یا دھیان میں رکھنے پڑتے ہیں، کسی نہ کسی وجہ سے موسم توجہ لینے لگتے ہیں۔
عمر کے ساتھ یاداشت کا موسموں کے ساتھ تعلق گہرا ہوتا رہتا ہے، کوئی انسان، جگہ یا واقعہ یاد آیا تو ساتھ میں اس وقت کا موسم بھی یاد آیا، کوئی فوت ہوا یاد آیا تو ساتھ میں یہ بھی یاد آیا کہ اس کے جنازے پہ موسم کیسا تھا، گرمی تھی تو جنازہ صحن میں کسی درخت کی چھاؤں میں رکھا تھا یا سردی کی وجہ سے اندر کمرے میں تھا۔ آبائی گاؤں میں گزرا بچپن کا کوئی واقعہ دوہرایا تو ساتھ میں حوالہ دیا کے اس وقت گرما یا سرما کی چھٹیاں تھیں۔
پہلی پہلی محبت کے دن یاد آئے تو اس چہرے کے ساتھ موسم کا حوالہ بھی آیا کہ موسم کیسا تھا، سویٹر پہنا تھا یا لون کا باریک سوٹ۔ دل ٹوٹنے کا وقت یاد آیا تب بھی موسم دھیان میں آیا کہ سردیوں کی خنک راتوں میں لحاف میں چھپ کر یا گرما کی لُو ملی فضا میں چھت پر بچھائی چارپائی پر لیٹے تاروں میں آنکھیں ڈال کر روئے۔
بہن نے شادی کرکے کس موسم میں گھر چھوڑا، بھائی کا بچہ کس موسم میں ہوا، باپ کس موسم میں گزرا اور ماں کس موسم میں بچھڑی۔ ہر موسم تلخ و شیریں یادوں کا البم بن جاتا ہے، ناسٹلجیا میں کوئی نہ کوئی موسم گھلا ملتا ہے ہر یاد کسی نہ کسی موسم سے منسوب ہوجاتی ہے۔ کچھ بھی ہوا ہو بیتا ہو کاٹا ہو یا گزارا ہوا موسم سے ماورا نہیں۔
انسان جیسے بوڑھا ہونے لگتا ہے وہ موسموں کے آنے جانے کا دھیان رکھنے لگتا ہے، میری نانی دن اور رات کے بڑھتے یا کم ہوتے دورانیے سے آنے اور جانے والے موسموں کی پیشن گوئی کرتی تھی، شاید ان کا مشغلہ یہی تھا، موسموں کو دھیان میں رکھنا، ان کی گفتگو میں موسم کا زکر ضرور ہوتا تھا موسم خزاں انہیں پسند تھا وہ اس میں نئے پودے لگاتی اور نیا سوٹ پہنتی انکی وفات پر پیڑ خشک تھے اور انہوں نے نیا سوٹ پہنا تھا۔