Manzar Badalte Hain
منظر بدلتے ہیں
لاہور کے پارک میں خیمہ لگائے بے خبر سوئے ہوئے جرمن شہری کو نہیں پتہ تھا کہ وہ اس وقت میونخ کے مضافتی قصبے میں ہائکنگ سے تھک کر خیمے میں سویا جرمن شہری نہیں ہے وہ راجہ رنجیت کے بسائے لاہور میں ہے جہاں اسے نیند سے جگا کر پنجابی زبان میں گالی دے کر جب موبائل مانگا ہوگا تو زبان نہ سمجھ آنے پر اس نے لڑکھڑاتی جرمن میں ڈرتے ہوئے پوچھا ہوگا کہ ?was willst du اور سامنے سے تھپڑ مار کر گن اس کے اوپر تان لی گئی ہوگی۔
خیمے کے ساتھ لگی اسکی سائیکل، جیب میں پڑا موبائل اور پانچ ہزار روپے جس پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مہر اور جعلی لائن میں لکھا "حاملہ ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا" اس سے گولی کے مطالبے پر کھینچ لیے گئے۔
لُٹا ہوا جرمن زمین پہ بیٹھا پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے سامنے رو رہا ہے جیسے بچے سے کھلونا چھن گیا ہو۔ وہ سخت بے یقینی کا شکار ہے۔ ایسے میں کچھ اہلکار اسے ناشتہ کرنے کا کہتے ہیں اور پنجابی میں حوصلہ مند رہنے کا کہتے ہیں۔ کہانی یہاں سے آگے نہیں بڑھے گی۔
منظر بدلتے ہیں۔
بہاولپور کے مصروف بازار میں ایک چائنیز سیاح اپنے گلے میں کیمرہ ڈالے دکان داروں خوانچہ فروشوں راہگیروں اور گداگروں کی تصویریں اتارنے میں محو ہے اسے خبر نہیں تھی کہ یہاں چاروں اطراف نظر رکھنی پڑتی ہے پاؤں مضبوط رکھنے ہوتے ہیں ہاتھ ڈھیلے نہیں چھوڑنے ہوتے مگر وہ چائینز نادانی میں تھا۔ ایسے میں کوئی پیچھے سے موٹر سائیکل سوار آتا ہے چائینز کے گلے میں کیمرے کو اس زور سے بھینچتا ہے کہ چائینز زمین پہ آ گرتا ہے اور کیمرہ اس کے گلے سے چھن جاتا ہے۔ وہ اس اچانک حملے کا عادی نہیں تو زمین سے لگ کے کانپنے لگتا ہے تھوڑے ہوش میں آکر رونے لگتا ہے۔
یہ دونوں اپنے ملک جائیں گے اور کوئی پوچھے گا کہ پاکستان کیسا تھا تو جواب میں نتھیا گلی کی ہریالی بالاکوٹ کے پہاڑ اور ایبٹ آباد کے جنگلوں کی خوبصورتی کا بیان نہیں دیں گے اگر خوبصورت لگے بھی ہوں گے تو بھی نہیں بتائیں گے۔ وہ چاہ کر بھی تعریف نہیں کرسکیں گے، لٹنے کا صدمہ اتنا گہرے نقش چھوڑ چکا ہوگا کہ وہ بس کہیں گے کہ وہاں کا رخ نہ کیا جائے۔
ایسے میں ہم کیا اخذ کریں گے؟
پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش کہیں گے؟ انفرادی تجربے کی بنیاد پر اجتماعی رائے قائم کرنے والے ان سیاحوں کی ہٹ دھرمی کہیں گے؟ لیکن آخر کتنے انفرادی طور پر سیاح لٹیں تو مجموعی طور پر ایک فیصلے پر پہنچا جائے گا کہ پاکستان سیاحوں کے لئے محفوظ ہے یا سیاح یہاں گھوم کر واپس جاتے ہیں اور اسے بدنام کرنے کی سازش کرتے ہیں۔
لٹنے کے بعد اس پاک سر زمین پر گرے پرائے ملکوں کے مسافر بے بسی سے اٹھتے ہیں اور واپس اپنے وطن لوٹ جاتے ہیں اور یہاں وطن کی مٹی گواہ تو رہتی ہے مگر ان کے حق میں گواہی دینے سے ہمیشہ انکاری ہوجاتی ہے۔