Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sondas Jameel
  4. Kya Khuda Mane Ga?

Kya Khuda Mane Ga?

کیا خدا مانے گا؟

آج گرفتاری کی رات ہے، ابلیس اپنے چاہنے والوں کے گرد موجود ہے۔ چھوٹے بڑے بزرگ اور جوان سب عقیدت مند چیلوں کی نگاہیں مسلسل اپنے آقا ابلیس کے چہرے پر مرکوز ہیں ہر کوئی بظاہر خاموش ہے، مگر چیخ کر رونا چاہتا ہے، اپنے آقا کی گرفتاری کو روکنا چاہتا ہے۔ ابلیس جو اجلے کپڑے، تازہ شیو بنائے پورے اہتمام کیساتھ صبح سے مکمل تیار ہو کر جبرائیل کے انتظار میں ہے۔ قبیلے کے عمر رسیدہ چیلوں کے پیچھے نوجوان چیلوں کا جھرمٹ ہے جہاں سے نکل کر ایک چیلا ابلیس کے روبرو آتا ہے اور مخاطب ہوتا ہے۔

آقا، ہم اس دفعہ جبرائیل کو پاؤں سے نہیں پروں سے پکڑیں گے، عرش تک اس کی سلامت واپسی اس صورت ممکن ہے کہ یا تو آپ کی جگہ ہم گرفتاری دیں یا آپ کے ساتھ ہم بھی قید میں جائیں ہم نے مل کر اس مزحمت کا تہیہ کیا ہے۔

ابلیس مسکرایا، نوجوان کو پاس بلایا گال پر ہاتھ سے چپت لگائی، کیا نام ہے تمہارا؟

میرا نام ابو داسم ہے آقا۔

داسم میرے بچے یہ جبرائیل کے معاملات نہیں ہیں، اور تم میں سے کوئی بھی اسے مجھے قید کرنے سے نہ پہلے روک سکا ہے نہ اب روک پائے گا۔ میری قید روایت ہے، روایت پر بحث نہیں کی جاتی۔

نوجوان کی آنکھوں میں بےبسی اتر آئی مایوس ہر کر اس نے ابلیس کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور واپس مُڑ گیا۔

اسی اثناء میں باہر چلتی ہوا میں یکلخت تیزی آئی یہ جبرائیل کی آمد کی نشانی تھی جبرائیل زمین پر اتر کر پروں کو سمیٹتا ہوا ہاتھ میں آہنی زنجیریں اور بیڑیاں لیے ابلیس کی قیام گاہ کے باہر اترا۔ ابلیس نشست سے اٹھا، چاروں جانب چاہنے والوں کی نظروں کو مسکراہٹ میں سمیٹا اور داخلی دروازے کی جانب چل دیا۔ داخلی دروازے کے کُھلتے ہی ابلیس کی نگاہیں پہلے جبرائیل اور پھر جبرائیل کے ہاتھ میں تھامے سامانِ سلاسل سے ٹکرائیں دو پرانے ساتھیوں نے ایک دوسرے کو پلکوں سے سلام کیا آنکھوں سے گلے لگایا دونوں اپنی حدوں کو جانتے تھے۔

ابلیس نے جبرائیل کے ساتھ چلنا شروع کیا۔

دونوں قدم بہ قدم خاموشی سے چلتے رہے۔

"جبرائیل تمہیں میری پہلی گرفتاری یاد ہے جب پہلی دفعہ مجھے قید کرنے کا حکم الٰہی لیے تم زمین پر آئے تھے؟" ابلیس گویا ہوا۔

شعبان دو ہجری جس دن آیتِ صیام کا حکم لے کر میں اترا تو مجھے اندازہ نہیں تھا اس حکم میں تمہاری قید بھی پنہاں ہے، تمہیں قید کا حکم الٰہی میرے لیے سب سے مشکل کام تھا اور اس سے مشکل اس حکم کی عمل داری کا تھا اس سے پہلے میں نے کبھی تمہیں نہیں چھوا تھا، تم نے زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے آخر کہاں کہاں نہیں چکر لگوائے اور پھر کہیں ان زنجیروں میں بندھے، وہ میری جوانی کے دن تھے، پروں میں اڑان کودتی تھی اب اگر تم بھاگے تو ممکن ہے مجھ سے نہ پکڑے جاؤ۔

ابلیس اور جبرائیل دونوں مسکرائے۔

جبرائیل دیکھو میری طرف کیا تمہیں وہ پہلے والا ابلیس مجھ میں دکھائی دیتا ہے؟ اس پہلی قید کے ڈر سے بھاگنا زمین پر میری آخری پُھرتی تھی۔ میں زمین کی پیدائش سے پہلے کا جی رہا ہوں، اور اب تھک گیا ہوں۔ یہ تھکن ان سوالوں کی ہے جو میری نئی نسل اٹھانے لگی ہے، انہیں تیس دن کی اس قیدِ بےمعنی کا کوئی مطمئن معنی کیسے سمجھاؤں جو میں خود نہیں جان سکا۔ میری کلائیوں اور پنڈلیوں پر زنجیروں کے نشان اتنے ہی پرانے ہیں جتنی پرانی ماہِ صیام کی تاریخ ہے، میں یہ گہرے نشان چھپا بھی لوں تو اُنہیں جرم اور قید کی تعریف کیسے سمجھاؤں، میرے قبیلے میں کسی نے قید نہیں دیکھی، مجھے دھتکار کے ساتھ آزادی ملی مگر میں نے ایک دن زمین پر آزاد نہیں جیا۔

جبرائیل میں آسمانی ہوں، میرا خمیر اس سیارے کا نہیں ہے، خدا یہ جانتا تھا، وہ بڑا حکمت والا ہے اس نے مجھے رہائی کے نام پر اس بیگانی آب و ہوا میں سانس لینے پر مجبور کیا اور تادیر دنیا کیا، اس نے آدم زاد کو تعوذ سکھائی کہ میں اس کے قریب نہ بھٹک سکوں، اس کے خلاف نہ کر سکوں مگر کیا وہ نہیں جانتا تھا، جبرائیل کیا تم مجھے نہیں جانتے کہ ابلیس اس ایک آدم کے پتلے کا انکاری تھا، آدم بن کر زمین پر اتر گیا، میری انا نے منہ کی کھائی یہ ٹھیس اور اپنی ہی نگاہوں میں اپنے رتبے سے گرنے کی توہین ہی میری لامحدود زندگی میں مسلسل سزا کے لیے کافی نہ تھی جو اس نے مجھے اس لامحدودیت کے سرائے میں بھیج کر تنہا چھوڑ دیا۔

ابلیس نے چند قدمے چلتے ہی رنج و الم کے دفتر کھول دیے۔

جبرائیل اس نے سمجھا کہ میں زمین پر انسان کو اس کی توحید سے گمراہ کروں گا مگر کیا وہ مجھ ابلیس کے جبلتی انا و تسکین کے دائرے سے آگاہ نہیں تھا جو باپ کا بدلہ اولاد سے لے کر کبھی سیراب نہیں ہوسکتا۔ جبرائیل اگر تم اس سے کہو کہ ابلیس تھک گیا ہے، اس نے زمین کے ہر ٹکڑے کو اپنا مسکن بنا کر دیکھا مگر لامحدود وسعت میں پھیلے انسان اور زمین کے بیچ کسی ایک ٹکڑے میں اس کا ٹھکانہ نہیں۔

وہ اس حد تک تھک گیا ہے کہ قابیل سے روئے زمین پر موجود آخری قاتل تک، ہوس میں بھٹکے آخری آدمی کے جرم تک، بارود بنانے سے جنگوں میں جوانوں کے سینے چھلنی کروانے تک، یہ ابلیس ابنِ آدم کا ہر شر ہر بدی ہر قبیح فعل کا الزام اپنے سر لے کر ہر سزا کے لیے تیار ہے مگر یہ سزا وہ اپنے پیدائشی مسکن عرش کی آب و ہوا میں کاٹنا چاہتا ہے جو اس کا ٹھکانہ ہے تو کیا خدا مانے گا؟

اگر لوح محفوظ پہ ازل سے ابد تک ہر انسانی خطا کے پیچھے میرا نام لکھ کر سزا میں تاعمر لکھ دیا گیا ہے تو یہ کھیل طویل کیوں کیا جائے اسی زمین پر ہی کیوں کھیلا جائے ابلیس کو الزام قبول، سزا قبول اب یہ کھیل ختم ہو، دست وحشت میں فقط میرا گریباں کیوں ہے۔ ابلیس کی آنکھوں میں وحشت، آواز میں پسپائی تھی جو جبرائیل نے اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی وہ یہ جانتا تھا کہ ابلیس کا ہر دن زمین پر کرب میں ہے مگر زمین اس کی انا اس قدر توڑ دے گی کہ وہ اس درجہ پسپائی سے خدا سے مخاطب ہوگا۔ وہ واقعی تھک چکا ہے۔

ابلیس نے جبرائیل کے سپاٹ چہرے میں نگاہیں گاڑیں اور لرزتی آواز میں سوال دہرایا۔

جبرائیل میرے بھائی! کیا خدا مانے گا؟

جبرائیل نے ہاتھ میں تھامی زنجیروں کی گرہیں کھولیں، ابلیس نے زنجیروں کو دیکھا اور جبرائیل کی آنکھوں میں اپنے لیے ہمدردی تلاش کی جبرائیل نے ابلیس کے چہرے کی جانب دیکھے بغیر اس کے دونوں ہاتھ پابندِ سلاسل کر دیے، ابلیس اپنی جگہ پر ساکت کھڑا رہا، بےبس لاچار بالکل ساکت۔ جبرائیل اب نیچے کی جانب جھکا اور بیڑیاں ابلیس کے ٹخنوں میں کسنے لگا ابلیس کا جُسہ لڑکھڑایا اور وہ مجذوب لہجے میں پھر بولا۔

بنانے والا کسی بھی نئے سیارے پر نیا آدم بنائے ابلیس پیشانی رگڑتا ہوا سجدہ ریز ہو جائے گا، میرے سجدے کو ضد بنا کر اس میں انسان اور انا کی سرخ لکیر کس نے کھینچی آج میں اپنے اس سوال سے بھی دستبردار ہوتا ہوں۔ میں آدم سے ہارا، زمین کے وقت سے ہارا میں خدا سے ہارا۔ میں قید سے رہائی اور اس کی شدت میں کمی نہیں مانگتا، فقط قید خانے کی تبدیلی کی درخواست ہے۔ کیا وہ مانے گا؟

جبرائیل اوپر سے نیچے تک ابلیس کو باندھ چکا تھا، وہ مسلسل اس کے اس عجیب سوال کی تکرار پر اس کی حالتِ زار پر حیران تھا اس نے ابلیس کو دونوں شانوں سے پکڑ کر جھنجوڑا اور گرجا۔ ہوش میں آؤ ابلیس، تم بشر نہیں ہو یہ التجا کہاں سے سیکھ لی؟ خدا کو تم سے زیادہ کون جانتا ہے جس نے مٹی کا بت ہمارے بیچ کھڑا کرکے ہمارے ہی گھر میں ہمارے سر غیر کے آگے جھکا دیے اور ہم کچھ بول نہ سکے۔

کیا تم نہیں جانتے میں اور مجھ جیسے فقط اس کی بارگاہ میں بغیر اجرت پہ رکھے مزدور ہیں، اور میں تمہیں بتاؤں مجھے کیا لگتا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ یہ دنیا فقط تمہارے اُس ایک انکار سے وجود میں لائی گئی، آدم در آمد کی تخلیق کا سلسلہ خداوند کی تم سے دشمنی کی وسعت پر پھیلا، یہ دنیا کسی بشر کا نہیں یہ تمہارا قید خانہ ہے جہاں ہر نیا انسان تمہاری قید کی سختی کے لیے بھیجا جاتا ہے یہ دنیا بشر کے لیے نافرمانی کی حد تک آزاد ہے اور تم یہاں لامتناہی زمانوں کے فرمانبردار قیدی ہو۔

پوچھتے ہو کہ خدا مانے گا؟ میں بتاتا ہوں، وہ ہنسے گا وہ سب ملائک کو بلا کر بیچ میں بیٹھ کر تمہاری بےبس پسپائی پر بےتحاشہ ہنسے گا۔ جبرائیل کے ہر لفظ میں لرزاہٹ عیاں تھی اس کا دل اپنے قدیم ساتھی کو یوں گِرا ہوا دیکھ کر مایوسی میں ڈوب چکا تھا اس نے بمشکل بات ختم کی، بندھے ہوئے ابلیس کے شکست خوردہ وجود کو سمندر کی عمیق گہرائی میں اتار دیا۔ عرش کی جانب واپسی پر سوال کی گونج نے اس کے کانوں کا پھر پیچھا کیا۔

" کیا خدا مانے گا؟"

Check Also

Muhib e Watan Bangali

By Syed Mehdi Bukhari