Kamyabi Aur Nakami Ki Kahani
کامیابی اور ناکامی کی کہانی
ڈھیروں لوگ سی ایس ایس کی تیاری کرتے، جان توڑ محنت کرتے دن میں بارہ گھنٹے پڑھتے اور امتحان میں ناکام ہو جاتے کچھ اور کرنے لگتے، کوئی کہانی نہیں بنتی۔
سینکڑوں لوگ گھر چھوڑتے، پیشن فالو کرتے نام شہرت اور پہچان کی چاہ میں ناکام ٹھہرتے، ناکام مر جاتے کوئی کہانی نہیں بنتی۔
لاکھوں طالب علم ہزاروں یونیورسٹیوں سے تعلیم مکمل کرتے، معاش نہیں ملتا، ذہن تھک جاتا، دماغ الٹ جاتا، خودکشی کر لیتے، کوئی کہانی نہیں بنتی۔
دلچسپ اور متاثر کن کہانی صرف کامیابی کی بنتی یہ کامیاب کوئی بھی ہو، کسی بھی ذریعے سے ہو، کتنے ہی سہل طریقے سے ہو، اسے کامیابی کی کہانی مشکلات کے پیچ و خم دے کر بنانی پڑتی کیونکہ سننے والے کان اور حسرت سے دیکھنے والی آنکھیں کامیابی کو آسانی سے فراہم ہوتا نہیں سن سکتے۔ ناکامی کی کہانی بھی صرف کامیاب شخص کی اچھی لگتی، کیونکہ اس میں ٹویسٹ ہوتا، سب جانتے کہ چونکا دینے والا ایلمینٹ ابھی آتا ہی ہوگا کہ وہ کس طرح کن کن نامساعد حالات سے گزر کر کامیاب ہوا۔
ناکام شخص کہانی سنائے تو کون سنے جب کہ اس کی کہانی سب پر عیاں ہے، اس کا حال بتاتا ہے کہ ماجرا کیا ہوا کیا بیتی، وہ اپنی کہانی میں کیا بتائے؟ وہ جب یہ الفاظ کہے کہ اس نے بھی محنت کی سخت محنت تو سننے والا اسے وہیں روک کر ہنسے اور پوچھے کہ پھر کامیاب کیوں نہیں ہوئے؟ اس سے آگے کی کہانی وہ جاری رکھ پائے گا؟ ناکام لوگوں کی کہانیاں کیوں منظر عام پر نہیں آتی، کیوں انہیں سنا نہیں جاتا، سنانے والے گھبراتے سننے والے بھاگتے، کیا زندگی میں حاصل کرنا، اچیو کرنا ہی ہیڈ لائن بنتی ہے کیا کچھ نہ کرنا، یا کرنے کی کوشش میں ناکام ہو جانا مطلوبہ منزل تک نہ پہنچ پانا اور اس کے بعد بس خاموشی سے بچی گزار جانا ایک انوکھی بات نہیں ہوسکتی؟
ہر دکھ میں سبق ہو یہ ضروری نہیں، مسلسل کوشش میں کامیابی ہو یہ ضروری نہیں، ہر اسٹرگل پھل لائے یہ ضروری نہیں، محنت رائیگاں جا سکتی، دکھ، تکلیف، رنج اور قربانی محض دکھ، تکلیف، رنج اور قربانی تک ہی رہ سکتے اس سے آگے کچھ بھی نہیں مل سکتا۔ لوگ ناکام ہو سکتے گمنام ہو سکتے مگر وہ کہیں نہ کہیں زندگی گزار رہے ہوتے۔ اگر بیس لوگ ریس میں بھاگے جو سب سے آخر میں آیا اس نے اپنے سے آگے انیس لوگوں کو نکلتا دیکھا کیا اس کی علیحدہ سے کوئی کہانی نہیں بنتی کہ وہ ریس میں کامیاب لوگوں کے ساتھ بھاگا؟
ناکامی نارملائز کیوں نہیں ہوسکتی، ہر ناکامی سے کامیابی کی کوئی شاخ پھوٹنے کی توقع اور سبق کیوں دیا جاتا؟ کیا ناکامی کو بغیر کسی دکھ کے قبول کرنا کامیابی نہیں، زندگی کے وسیع میدان میں کوئی انسان اگر بھاگ کر کامیاب نہیں بھی ہوسکا کہیں جانا تھا کسی مقام تک پہنچنے کی چاہ میں ناکام ہوا تو اس سے آگے کوئی رستہ ایسا نہیں نکالا جا سکتا جہاں وہ بغیر صدمے کے جی سکے اور ناکامی کی کہانی من و عن جیسی ہے ویسی اپنے نام کے ساتھ سنا سکے؟