Har Insan Apne Aap Mein Aik Kahani Hai
ہر انسان اپنے آپ میں کہانی ہے
انسانی نوع نے مجموعی طور پر سمال ٹاک کرنا چھوڑ دی ہے، اپنے سرکل کے علاوہ کسی سے بات کرنا یا بات پوچھ لینا آخر کب ممنوع ہوا اور اسے لفظ "آکورڈ" سے کس نے ڈھانپا؟
بس اسٹینڈ پہ ساتھ کھڑے کسی شخص کا خمیر آپ ہی کے مزاج اور طبیعت کی مٹی سے گوندھا ہو یہ کیسے پتہ چلے گا جب تک کسی بہانے یا دھکے سے اس سے بات شروع نہ کی جائے۔
ہر انسان اپنے آپ میں کہانی ہے، اگر کوئی پچیس کا ہے تو اس کے پاس کم از کم پندرہ سال پر مشتمل سنانے کو کتنا کچھ دلچسپ ہوسکتا ہے۔ اس نے محبت کی ہوگی شرارت ہوئی ہوگی، وہ کسی ایسی جگہ سے گزرا ہوگا جو سننے اور دیکھنے لائق ہوگی، وہ ڈرا ہوگا، اس کے پاس اپنے لطیفوں، گانوں انٹرٹینمنٹ کے ذریعوں کا مجموعہ ہوگا پچیس سال لمبا عرصہ ہوتا، ساٹھ سال اس سے لمبا۔۔
یوں ہر ایک شخص کے اندر بتانے کو کتنا کچھ ہے اور کتنا مختلف ہے، کسی کے پاس پچیس سال پر محیط کسی کے پاس ساٹھ سال پر، ایورج اگر کوئی ایک پوری زندگی میں دس ہزار لوگوں سے بھی ملے تو ان دس ہزار نے دس ہزار زاویوں سے زندگی کی ہر اسٹیج ہنڈائی ہوگی۔ ہر کسی کے پاس اپنی کہانی، یاداشتیں ہمہ جہت شوق اور ترجیحات کا بیان ہوگا مگر لوگ زندگی کے دس ہزار زاویے ایک اس سوچ پر ختم کر دیتے ہیں کہ بلاوجہ کسی اجنبی سے بات کیوں کی جائے کیسی ڈائن سوچ ہے یہ۔۔
روزمرہ کی روٹین میں ایک ہی جیسے سرکل میں بیٹھ کر ایک ہی جیسے لوگوں کی تمام کہانیاں عادات قصے مزاح کی نفسیات سمجھ کر، سن کر اور اٹھ کر تھک تو جاتے ہیں مگر پھر بھی اسٹیشن پہ گاڑی کا انتظار کرتے اجنبی سے بنک کی قطار میں اپنے سے آگے کھڑے کسی شخص سے پورے شہر کی سڑکیں دکانیں محلوں اور ہوٹلوں کی ڈکشنری سینے میں حفظ کیے کسی ریڑھی بان سے کوئی نئی بات سننے کی کوئی نیا پہلو دریافت کرنے کی جستجو میں اس کا نام پوچھ کر بات شروع نہیں کرتے۔
تنہا کمروں میں ایک ہی جیسی باتیں قصے مزاح اور مزاج رکھنے والوں کے میسج کے انتظار میں مرتے ہیں گُھٹتے ہیں کہ جیسے کل ملا کے زندگی فقط چار لوگوں پر محیط ہے۔