Har Dar Ka Zaiqa Mukhtalif Hai
ہر ڈر کا ذائقہ مختلف ہے
میٹھا صرف میٹھا نہیں ہوتا۔ شہد میٹھا ہے، آم میٹھا ہے، شہتوت میٹھا ہے مگر آنکھ بند کرکے چکھنے پر بھی مٹھاس کے فرق سے مٹھاس کے سورس کا پتہ بتایا جاسکتا ہے۔ مختلف سورس سے آنے والا ڈر بھی مختلف احساس رکھتا ہے۔
امتحان میں فیل ہونے کا ڈر اور دورانِ امتحان نقل کرتے پکڑے جانے کا ڈر دونوں ہی ڈر ہیں مگر کیا ان کا احساس ایک جیسا ہے؟ جاب نہ ملنے کا ڈر اور جاب ملنے کے بعد باس کے سامنے کارکردگی کھل جانے کا ڈر دونوں ہی ڈر ہیں مگر کیا ان کا احساس ایک جیسا ہے؟ مر جانے کا ڈر، کسی کو مار کر پکڑے جانے کا ڈر دونوں ڈر ہیں مگر کیا ان کا احساس ایک جیسا ہے؟ تمام عمر کسی رشتے میں نہ بندھنے کا ڈر اور تمام عمر غلط رشتے میں بندھے رہنے کا ڈر دونوں ڈر ہیں مگر کیا ان کا احساس ایک جیسا ہے؟ گھر سے نہ نکلنے کا ڈر اور نکل کر بھٹک جانے کا ڈر دونوں ڈر ہیں مگر کیا ان کا احساس ایک جیسا ہے؟
دماغ جانتا ہے کہ یہ سارے ڈر تو ہیں مگر ان کے احساس مختلف ہیں، ان کے حلیہ مختلف ہے نام ایک ہے شکلیں مختلف ہیں ان پر ردعمل مختلف ہے، ان سے اٹھنے والے خوف کی مقدار بھی کم زیادہ ہے۔
کچھ ڈر گریباں سے پکڑ کر آگے بڑھاتے ہیں کچھ پاؤں پکڑ کر پیچھے دھکیلتے ہیں۔ کچھ ڈر صرف رلاتے ہیں پریشان نہیں کرتے۔ کچھ پریشان رکھتے ہیں مگر آنکھ نم نہیں کرتے۔ کچھ ڈر محبت پیدا کرتے ہیں کچھ نفرت ساتھ لے آتے ہیں کچھ ڈر لمبا ٹھہرنے آتے ہیں کچھ آتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ مگر لفظ ڈراور ڈرنے کا احساس سادہ اور سیدھا نہیں ہے۔
اگر کوئی کہے مجھے ڈر لگتا ہے تو یہ مہمل الفاظ ہوں گے جنہیں جملے میں لانے کے لیے اسے ڈر کا سورس اس سے ہونے والے خوف کی مقدار اور اس میں شدت کا احساس بتانا پڑے گا۔ دماغ بڑے ہی واضح طریقے سے ہر ڈر کا ڈاٹا سیو رکھتا ہے۔ وہ فزیکل ڈر اور سائیکالوجیکل ڈر میں فرق جانتا ہے اور ان دونوں میں موجود خوف کے ذائقے کا فرق آدمی پہنچاتا ہے۔
ماں کے مرنے کا ڈر دوست کے مرنے کے ڈر سے زیادہ نہیں دینا، دماغ جانتا ہے۔ باس سے گالی کا ڈر اور باپ سے گالی کے ڈر سے کام کو کتنی جلدی ختم کرنا ہے، دماغ جانتا ہے۔
کچھ ڈر شام تک ٹھہرتے ہیں کچھ نیند سے اٹھنے کے بعد نہیں رہتے کچھ فراغت دیکھ کر ساتھ ہو لیتے ہیں کچھ مصروف گھنٹوں میں جھانک لیتے ہیں۔
آدمی ہوش سنبھالتے ہی خود کو ایک لمحہ ڈر سے جدا نہیں پاتا۔ روٹی سے پہلے ڈر آتا ہے محبت سے پہلے ڈر آتا ہے خوشی سے پہلے ڈر ہے، خوشی میں ڈر ہے۔
ڈر کے آنے کا دورانیہ مسرت کی عمر طے کرتا ہے حتی کہ مسرت کا وجود تک ڈر کے کاندھوں پہ جھولتا ہے۔ جیسے اندھیرے کے بغیر اجالے کا وجود نہیں ڈر کے بغیر حاصل کا وجود نہیں۔
ڈر قدیم ہے، صدیوں پہ محیط ہے نسلوں میں چلتا ہے رگوں میں دوڑتا ہے پیچھا تو چھوڑتا ہی نہیں۔ ڈر نے ارتقائی مراحل طے کروائے۔ جنگل چھڑوایا، کشتیاں بنوائیں پانی پر فتح دلوائی زمین سے خوراک اگلوائی۔ ڈر کہیں بیڑی ہے کہیں چاقِ سلاسل۔ ڈر کہیں بغاوت ہے کہیں خاموشی۔ کہیں بزدل بن کے اترتا ہے کہیں ہمت بن کے لپٹتا ہے۔ کہیں آنے میں دیر کرتا ہے کہیں جانے کے رستے بھول جاتا ہے۔
زندگی محبت سے چلی ہوگی مگر۔۔ قائم ڈر پر رہے گی۔