Gum Gashta Chehre
گُم گشتہ چہرے
ویگن میں ساتھ بیٹھی اُس لڑکی سے جب میں نے کہا کہ تمہارے کپڑوں سے بڑی خوشگوار خوشبو آ رہی ہے تو اُس نے جھٹ سے پرس سے پرفیوم کی بوتل نکالی اور میرے دونوں شانوں پہ ہلکے سے چھڑک دیا اور بولی اب ہم دونوں سے آئے گی۔
فوٹو اسٹیٹ پر نوٹس کاپی کروا کر یاد آیا کہ پرس بھول گئی تو لائن میں پیچھے کھڑے اُس باریش بزرگ نے پریشانی بھانپتے ہوئے ہلکے سے کندھا تھپکا کر کہا پُتر تم جاؤ پیسے میں دے دوں گا، میری بیٹی بھی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے میں بھی اس کے صفحے کاپی کروانے آیا ہوں۔
اُس رکشہ چلاتے ڈرائیور کو جب سمجھایا کہ اُس کے بچے کی اسکالرشپ کے لیے کیسے اپلائی ہوگا اور کیسے اُس کا پڑھائی کا ماہانہ خرچ نکل سکتا ہے تو گھر کے باہر اُتار کر کرایہ دینے پر اُس نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر کرایہ لینے سے انکار کیا اور چلاگیا۔
بھیڑ میں یہ چہرے محدود لمحوں کے لیے آئے۔ نام، کام اور ٹھکانہ جاننے کی مہلت دیے بغیر اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلایا اور منظر سے غائب ہوکر پھر کئی منظر، کئی لمحوں اور کئی حوالوں میں قید ہوگئے۔ کبھی فرصت میں کھوئے لمحوں میں، کہیں کام میں اُلجھے خیالات میں کسی نے کُچھ کہا، کچھ بتایا یا کسی اور خیال کی مسافت طے کرتے ہوئے یہ لوگ جن کے چہرے تو شاید دماغ نے بھلا دیے مگر ان سے منسوب حوالے بےلوث و بےغرض اپنائیت اور اخلاق میں لبریز مہربانیاں تمام تر تفصیلات کے ساتھ دماغ کے بالا خانوں میں جگمگا اُٹھی۔
جب بھی اِن گُم گشتہ چہروں کو سوچا تو یہ گمان رکھا کہ زندگی نے اِن چہروں کی رونق نہیں چھینی ہوگی، کوئی سانحہ، کوئی المیہ ان کے ساتھ ایسا نہ گُزرا ہوگا جس نے اِن خوش مزاجوں سے خوش اخلاقی چھین کر دُنیا تھما دی ہو۔ یہ چہرے کہیں خوشبو بانٹ رہے ہوں گے، کہیں کانوں اور کاندھوں پہ ہاتھ رکھ کر اپنائیت کا احساس دلا رہے ہوں گے۔
یہ دنیا، بےحد ہوشیار دنیا کی زندگی نے ان چہروں کو مجبور نہ کیا ہو، تنگ نہ کیا ہو اس نہج پر نہ لے آئی ہو جہاں سے ان لوگوں کی خوش مزاجی اور انجان انسانوں سے ہمدردی مانند پڑی ہو۔ گمان یہی ہے کہ ان مضبوط پہچان کے انجان چہروں سے یہ دنیا بےحد ہوشیار دنیا سادگی سے پیش آرہی ہو۔