Daire Ke Chakkar
دائرے کے چکر
جن بزرگوں نے سرمایہ اکھٹا کیا، موسموں کی سختیوں میں کھڑے ہو کر اینٹ پتھر اور گارے سے مکان بنائے اور اپنے نام کی ملکیتی تختیاں آویزاں کی انہوں نے اپنے قدم باندھ لیے۔
ان کے سفر دیواروں میں پلستر کے ساتھ لپٹے رہے، باہر نہیں نکلے۔ لمبے راستوں سے خوف کھانے لگے، کہیں پہ گئے تو مڑ مڑ کے گھر تکتے رہے۔
نئی جگہوں پہ اپنا قیام محدود کردیا، جیتے جی اپنے مقبرے میں بنائی کمرے کی کشادہ قبر میں لیٹنے کی بےچینی نے کسی پرائے گھر کے صحن میں اترے چاند کی بدلی سمت پر غور نہ کرنے دیا۔ یہ اپنے جینز کے دھاگوں سے بنائے کھلونوں سے کھیلنے کی عادت میں کمی نہ لا سکے، کھلونے اکتا گئے۔
انہوں نے انجان قصبے کی ہوا پانی اور آسمان رد کیے۔ ان کی آنکھوں نے چہرے دیکھے، مناظر نہ دیکھے۔ ستر سال میں دو منٹ سنانے کو کوئی ایک دلچسپ کہانی اکھٹی نہ کر سکے۔ ایک ہی پیڑ کے نیچے لیٹے، ایک ہی کہانی ہر نئے آنے والے کو سناتے رہے۔
کوئی نیا شجر نہ دیکھا، نیا پھول نہ سونگھا، پہاڑیوں کے پیٹ میں بہتے چشمے ان کی حیرت سے پرے رہے، یہ کبھی راستہ بھول کر پرائی بولی مذہب عقیدے اور پہناوے والے آدمی سے نہ مل سکے۔
انہوں نے مکانوں کو مرکز بنایا اور مرکز میں جم گئے دائرے میں چکر نہیں لگایا۔ اتنا کچھ بنایا جوڑا اور سمیٹا کہ ساری زندگی حساب میں گزاری جواب سوال اور تکرار میں رہے، ناآسودگی کے ناسور سے ذہن برابر چھلنی کروایا دونوں ہاتھ اور دل کے چار خوشے بھر نہ سکے۔
یہ ہمارے بڑے تھے، سب سے بڑے۔۔ کیا انہوں نے نئی راہیں دکھانی تھی جن کے قدموں نے نئی زمین قبول نہ کی؟ جن کی سب سے دیرینہ خواہش پیدائش کی جگہ پہ ہی مرنے کی رہی جنہوں نے اپنے کفن سلوا کر گھر کی الماریوں میں رکھے اور پھر انہیں پہننے تک گھر نہ چھوڑے۔