Chehra Kahani
چہرہ کہانی
چہروں کو دیکھنا کسی کا مشغلہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ انسانی چہرے سے بڑھ کر معجزہ اور حیرت کدہ کیا ہوسکتا ہے۔ چہرہ بیتی کا گواہ ہے، چہرہ تاریخ ہے۔ وقت کتنا گزرا اور کیسے گزرا چہرے کے خدو خال تھکن سکون اور بےآرام وقت کے برابر تناسب میں ڈھل کر چیختی کہانی خاموشی سے سنائے جاتے ہیں۔ چہرے کو پہچان کی مسند یونہی عطا نہیں ہوئی۔ چہرہ ان گنت چہروں کو دیکھتا ہے، کوئی سطحی دیکھتا ہے، کوئی گہرائی میں اتر جاتا ہے، گہرائی میں اتر کر دیکھنا دلچسپ ہے۔
اس جہاں میں انسانوں کی جانب دیکھنا ہی دلچسپ ہے۔ بھیڑ میں چہروں کو دیکھنا، اور دیکھ کر سوچنا کہ ہر چہرہ کتنا وسیع اسٹیج ہے، جہاں قہقے اور آنسو خوشی اور غم سوز اور راحت کے سارے ایکٹ پر فارم ہوتے ہیں کوئی چہرہ جو کسی ایک ایکٹ سے محروم رہا ہو؟ کوئی نہیں، چہروں میں گِھرے چہرے، بھیڑ میں گم ہوتے چہرے، دور سے غیر واضح قریب آتے ہی جھٹ سے واضح ہوتے چہرے، بھول جانے والے چہرے یاداشت میں نقش ہوتے چہرے پراسرار چہرے۔
وقت کی تیزی اور قلت نے رک کر چہروں کو بغور دیکھنے کا عمل چھین لیا اور ہر زمانے نے سہولت کے لیے ہر دور کے انسانوں کو چند پیرامیٹرز دیے، جن کی کسوٹی پر چڑھا کر جلدی سے چہروں کا جائزہ لیا جاسکے، یہ عجلت کے عطا کردہ پیرامیٹرز کس قدر غیر انسانی ہیں۔ چہرہ جزبات کا آئینہ دار، چہرہ اولین زمانوں سے جدید زمانوں میں رائج پہلا تعارف، چہرہ زبان سے پہلے، چہرہ عہدوں سے پہلے چہرا ذات اور نسل سے پہلے چہرہ ایماں اور عقیدے سے پہلے انسانی نوع کی قدرتی اور دائمی پہچان رہا۔
چہرہ اپنے دھڑ کا سگا اور دماغ کا باغی ہے۔ دماغ لاکھ چاہے مگر دھڑ سے نکلتا قہقہ روک نہیں سکتا آنسو دبا نہیں سکتا، آنکھ کے رستے بہا دیتا ہے۔ اندر کا طیش ماتھے کے بیچ ابھری لکیر میں دکھا دیتا خوش ہو تو گالوں میں سیب بھر دیتا ہے۔ ڈر اور حیرانی آنکھوں کی پتلیوں میں اتار دیتا غم میں بھنویں جھکا دیتا۔ چہرے کو آرام نہیں، چہرہ مسلسل بولتا چلا جارہا ہے مگر چہروں کو دیکھنے والے ہیں سننے والا کوئی نہیں۔ چہرہ سُنن کا طلبگار ہے۔