Bejo
بیجو
سقراط زہر سے مر گیا نطشے پاگل پن سے اور بجیو کھڑے کھڑے مر گیا۔ یہ انیس سو چورانوے کی ایک دوپہر ہے، اٹلی اور برازیل فیفا فٹبال ورلڈ کپ کے فائنل میں ہیں، اسٹیڈیم اپنی گنجائش سے چوگنا تماشائیوں کو سموئے ہوئے ہے کھیل کا فیصلہ پینلٹی کک پہ چلا گیا ہے۔ اب کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا مگر ہر کسی کو یقین ہے کہ کہ اٹلی کا بجیو جس نے کبھی پینلٹی کک مس نہیں کی، جو ہارے ہوئے اٹیلینز کو جیت کے اس دہانے پر لایا ہے، وہ آئے گا اور یہ آخری فیصلہ کن پینلٹی کھیل کر اٹلی کو جشن کا موقع دے گا مگر ہوا کیا؟
بجیو آتا ہے، پوزیشن لیتا ہے فٹ بال کو کک مارتا ہے مگر فٹ بال گول سے کوسوں دور اسٹڈیم میں بیٹھے تماشائیوں کے پاس پہنچ جاتا ہے سفاک غلطی ہوچکی۔ اٹیلین تاریخ کا یہ لمحہ بجیو کو گناہگار لکھ چکا۔ بجیو میدان کے بیچ کھڑا ہے تنِ تنہا۔ اسٹینڈنگ ڈیڈ۔ کوئی کھلاڑی بھی اس تک پہنچ کر اسے تسلی دینے کی جرات نہیں جٹا پا رہا، ہر کوئی جانتا ہے کہ تسلی مذاق ہے، کاٹو تو خوں نہیں بجیو کا رُواں رُواں پچھتاوے کی کانٹے دار چبھن سے چھلنی ہے۔
وقت بہت گزر گیا ہار کے نقوش مٹنے لگے مگر انیس سو چورانوے کی اس دوپہر کے گھاؤ یاد کرتے بجیو نے کہا اُس دن وہ زندگی ہار جاتا تو اسے تکلیف نہ ہوتی مگر آسمان کی جانب جاتے ہوئے فٹ بال کو دیکھتے اس لمحے نے اس سے اسکی نیند چھین لی یہ ضائع ہوئی کک اس کے سرہانے سے چمٹ گئی۔
ہار کا لمحہ بمشکل چند سیکنڈ کا ہوتا ہے مگر اسے نگلتے زندگی نکل جاتی ہے۔ اٹیلین آج بھی سمجھتے ہیں کہ خدا سب کچھ معاف کر دے گا مگر بجیو۔۔
مگر بجیو آج بھی زندہ ہے اس پر فلمیں بنیں ڈاکومنٹریز کا حصہ رہا وہ اٹلی کی فٹبال فیڈریشن میں بڑے عہدے پر فائز بھی رہا وہ کوچ بھی رہا، اس نے اس ہار کے باوجود بے حد فٹ بال کھیلا بہت نام کمایا۔ اس کے سفر میں اس کے سپرچوئل بلیوز نے اسے سنبھالا وہ بدھ مت سے متاثر ہوا اور اس کے بقول یہی وہ سہارا تھا، جسے تھام کر وہ کھڑا ہوا۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بھی یونہی ہارا جب اسے ایک میجر انجری ہوئی اور وہ بیڈ پہ درد سے کراہتا اپنی ماں سے کہتا کہ ماں اگر مجھ سے پیار کرتی ہو تو میرا گلا دبا دو۔
جلدی سے ہار ماننے والا، کوچ کھلاڑیوں اور اپنے باپ سے اکھڑنے والا بدمزاج یاس پسندی کا مارا بیجو اٹلی کی سب سے چاہی جاننے والی شخصیت بنا، بیجو اس کا سہرا بدھ مت کی تعلیمات اور اُس کے ان تعلیمات پر پختہ یقین کو مانتا ہے۔
سوچ کا دائرہ بہت وسیع نہ کرتے ہوئے بس ایک دو سوال خود سے کرتے ہیں اور خود ان کے سوال ڈھونڈتے ہیں کہ کوئی بھی سہارا جو مذہب کی صورت میں ہو یا سپرچوئل گرو کی صورت میں اگر کسی منزل تک پہنچنے کی تحریک دے گھنگھور اندھیرے میں پڑے ٹوٹے بدن میں گم شدہ ہوئے حوصلے کو ڈھونڈ نکالے اور اٹھ کر پھر سے چلنے کی وجہ بن جائے تو ایسے سہارے کو ایسے گُرو کو ایسی تعلیمات کو اپنانے میں حرج کیا ہے؟ سہارے کو قبول کرنے میں آدمی کا جاتا کیا ہے اور اڑ جانے میں سہارے رد کرنے سے اپنے منجمد ہوئے یقین کو نہ بدلنے میں آدمی کے پاس رہتا کیا ہے؟