Art Degree Aur Karobar
آرٹ ڈگری اور کاروبار
آرٹ ڈگری اور کاروبار تین الگ الگ ڈسپلن اور ڈومینز ہیں۔ پہلی جانب کوئی ناچ کے دو کروڈ کما رہا ہے، کوئی پاری ہورہی' کہہ کر پورے ملک کی سنسیشن بن رہا ہے اور دوسری جانب کوئی سترہ گولڈ میڈل گلے میں لٹکائے گھر سے بس کا کرایہ لے کر کسی جگہ کام کی خاطر سی وی چھوڑنے جارہا ہے، تیسری جانب کوئی کچرے سے اٹھتا ہے، مفسلی کی چادر بیچ کر کسی کاروبار کا حصہ بنتا ہے اور ان دونوں سے اوپر اٹھ جاتا ہے۔
مسئلہ کسی کو بھی کسی سے نہیں ہونا چاہیے۔ کوئی کسی کی راہ میں نہیں آیا۔ سب اپنی سمت کی جانب رواں ہے۔ وائرل ہونے والے کی رقم حرام کی نہیں ہاں کم محنت اور زیادہ قسمت والی کہہ سکتے۔ بےروزگار ڈگری والے کا رستہ جدا ہے۔ اس کا زریعہ معاش تک پہنچنے کا طریقہ سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہونے والے سے جدا ہے، یہ اس نے خود چنا ہے۔ حکومت کیا کررہی کیوں اسے نوکری نہیں دے رہی یہ بحث موجود رہے گی۔
مگر اس کی نوکری کا حق کوئی وائرل ہوئی چیز کھا نہیں رہی، اس پر الزام لگانا اپنا دل ہولا کرنا ہے۔ لنک کوئی نہیں لاجک کوئی نہیں، کاروبار اور ڈگری کا مقابلہ اکیسویں صدی میں باقاعدہ گراف کی صورت میں موازنہ کرکے کیے جانے کی روایت نے زور پکڑا۔ کاروباری عموما ڈگری یافتہ نہیں ہوتے تو وہ اپنے پہلو سے نوٹ نکال کر ڈگری فضول والی بحث جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اور ڈگری والوں کے پاس دفاع کے لیے اکثر مایوسی کے اور کچھ نہیں ہوتا سو کچھ چپ رہتے کچھ اندر سے کوئلہ ہو جاتے اور کچھ جان سے جاتے افسوس ہے۔ مگر الزام کاروباری کا نہیں، سب اپنے تئیں زریعہ معاش ڈھونڈنے نکلتے۔ کچھ ڈگری سے کچھ کاروبار سے کچھ آرٹ سے سب کا طریقہ مختلف ہوتا انعام مختلف ہوتا ناکامی مختلف ہوتی ہار کر کسی دوسرے کے طریقے کو چیٹنگ کہنا ناکامی کا رنگ مزید گہرا کرتا ہے، کم نہیں کرتا۔
کچھوے اور خرگوش کا مقابلہ تاریخ کا احمقانہ مقابلہ تھا۔ یہ مقابلہ برابری کا تھا ہی نہیں اور نہ ہی دونوں میں مقابلہ تعین کیے مقام تک پہلے پہنچے کا تھا۔ بلکہ یہ دوڑ فقط جیت کے مقام تک پہنچنے کی تھی فکرمند کچھوا بغیر رکے مسلسل چلتا ہوا، وہاں پہنچ گیا اور من موجی خرگوش رستے میں کھا پی کے سائے میں رک کر آرام کرتا ہوا جیت کے مقام تک پہنچ گیا۔ دونوں جیتے، اس دوڑ میں ہار فقط رکنے والے کی تھی۔