Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohail Bashir Manj
  4. Mic Khamosh, Awaz Buland

Mic Khamosh, Awaz Buland

مائیک خاموش، آواز بلند

عالمی سطح پر طاقت اور اثر و رسوخ کی جنگ کوئی نئی بات نہیں، لیکن جب یہ جنگ اقوام متحدہ کے ایوانوں میں کھل کر سامنے آئے تو اس کے پیغامات بہت گہرے اور معنی خیز ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ترک صدر طیب اردگان اور انڈونیشین صدر کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ، جہاں ان کی تقریر کے دوران مائیک بند کر دیا گیا، عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا اور تلخ پیغام تھا۔ یہ واقعہ محض ایک تکنیکی خرابی نہیں تھا، بلکہ اس نے کئی حقائق کو بے نقاب کر دیا۔

​یہ واقعہ سب سے پہلے عالم اسلام کی آواز کو دبانے کی کوشش کا واضح ثبوت ہے۔ اقوام متحدہ ایک ایسا فورم ہے جہاں ہر ملک کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن جب مسلم دنیا کے بڑے رہنما، جو فلسطین، کشمیر اور دیگر مسلم مسائل پر کھل کر بات کر رہے تھے، ان کی آواز کو خاموش کر دیا جائے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ایک خاص بیانیہ اور نقطہ نظر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر آپ عالمی طاقتوں کی پالیسیوں اور ان کے زیر اثر بیانیے سے ہٹ کر بات کریں گے، تو آپ کو بولنے کا حق نہیں دیا جائے گا۔

​دوسرا اہم پیغام یہ ہے کہ مغرب کا دوہرا معیار کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ مغرب خود کو آزادیٔ اظہار کا سب سے بڑا علمبردار قرار دیتا ہے، لیکن جب بات عالم اسلام کے رہنماؤں کی ہو تو یہ اصول ہوا ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے بھی بعض طاقتوں کے زیر اثر ہیں اور وہ ان کے مفادات کے خلاف جانے والی آوازوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ عالم اسلام کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اس کے مسائل کو عالمی سطح پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور جب ان پر بات کرنے کی کوشش کی جائے تو اسے دبا دیا جاتا ہے۔

​تیسرا اہم پیغام یہ ہے کہ عالم اسلام کو اپنی قوت پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ یہ واقعہ مسلم ممالک کے لیے ایک واضح اشارہ ہے کہ انہیں اپنی مشترکہ طاقت کو پہچاننا ہوگا۔ انفرادی طور پر مسلم ممالک کی آواز کو دبایا جا سکتا ہے، لیکن اگر وہ متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوں تو کوئی بھی طاقت انہیں نظرانداز نہیں کر سکتی۔ یہ واقعہ خود انحصاری اور اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

​خلاصہ یہ کہ ترک اور انڈونیشین صدر کے مائیک بند ہونے کا واقعہ صرف ایک تکنیکی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سیاسی پیغام تھا۔ اس نے یہ ظاہر کیا کہ عالمی سطح پر مسلم دنیا کی آواز کو دبانے کی شعوری کوششیں جاری ہیں۔ یہ واقعہ عالم اسلام کے رہنماؤں اور عوام کے لیے ایک بیداری کا لمحہ ہے کہ انہیں اپنے حقوق اور مسائل کے لیے نہ صرف آواز اٹھانی ہوگی بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ متحد بھی ہونا ہوگا۔

غزہ کی صورتحال اور فلسطینیوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی یکجہتی کے پیش نظر، اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر ایک حساس موقع تھا۔ اس موقع پر مسلم ممالک اور کئی دیگر اقوام کے نمائندوں کا واک آؤٹ ایک علامتی، مگر انتہائی اہم اور واضح احتجاج تھا۔ یہ واقعہ صرف ایک احتجاجی عمل نہیں تھا، بلکہ عالمی برادری کو کئی اہم پیغامات دے گیا۔

​یہ واک آؤٹ سب سے پہلے فلسطینی عوام سے غیر متزلزل یکجہتی کا پیغام تھا۔ مسلم دنیا اور دیگر ممالک نے یہ واضح کیا کہ وہ غزہ اور مغربی کنارے میں جاری انسانی بحران اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔ یہ عمل فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک مضبوط اور متحد آواز تھی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار نہیں کی جائے گی۔

​دوسرا اہم پیغام یہ تھا کہ اسرائیل اپنی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ واک آؤٹ صرف مسلم ممالک تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس میں کئی ایسے ممالک بھی شامل تھے جو ماضی قریب میں اسرائیل کے قریبی اتحادی تھے۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ اسرائیل کی سخت گیر پالیسیاں، خاص طور پر غزہ میں فوجی آپریشنز، اسے عالمی برادری سے دور کر رہی ہیں۔ یہ عمل اسرائیل کے لیے ایک واضح اشارہ تھا کہ اس کی پالیسیوں کی وجہ سے اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور اسے اب پہلے کی طرح آسانی سے قبول نہیں کیا جا رہا۔

​تیسرا پیغام عالمی اداروں پر اعتماد کے فقدان سے متعلق تھا۔ یہ احتجاج اس بات کا اشارہ ہے کہ کئی ممالک کو اقوام متحدہ جیسے اداروں کی کارکردگی پر شک ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے فلسطینی مسئلے کو حل کرنے یا اسرائیل کو اس کی مبینہ خلاف ورزیوں پر جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس واک آؤٹ نے یہ پیغام دیا کہ اگر عالمی ادارے انصاف فراہم نہیں کر سکتے تو ممبر ممالک اپنے تحفظات اور احتجاج کا اظہار دیگر طریقوں سے کریں گے۔

​مجموعی طور پر، یہ واک آؤٹ صرف ایک احتجاجی عمل نہیں تھا، بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری کا ایک ثبوت تھا۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ فلسطینی کاز آج بھی ایک زندہ حقیقت ہے اور اسرائیل کی پالیسیاں اسے عالمی سطح پر تنہا کر رہی ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی علامتی کارروائی تھی، لیکن اس کے اثرات اور پیغامات بہت گہرے اور دور رس ہیں۔ یہ واقعہ ایک نئی عالمی صف بندی کی جھلک بھی دکھاتا ہے، جہاں دنیا کا ایک بڑا حصہ اب صرف مغرب کے حمایت یافتہ بیانیے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ وہ اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق اپنی خارجہ پالیسیوں کو ترتیب دے رہا ہے۔

​ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ایک ایسے وقت میں ہوا جب عالمی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور مسلم امہ کو کئی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ تقریر محض ایک رسمی بیان نہیں تھی، بلکہ اس میں پاکستان کا وہ مؤقف جھلک رہا تھا جو مسلم دنیا کے مشترکہ دکھوں اور مسائل کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ خطاب کئی حوالوں سے اہم ہے اور اس کے مسلم امہ پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

​وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے اور بھارت کے غیرقانونی اقدامات کی مذمت کی۔ اس کے ساتھ ہی، انہوں نے فلسطین کی صورتحال پر بھی بات کی اور غزہ میں جاری مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اعادہ کیا۔ ان دونوں اہم مسائل کو ایک ساتھ اٹھانا ایک دانشمندانہ اقدام تھا، کیونکہ کشمیر اور فلسطین دونوں ہی مسلم امہ کے دل کے زخم ہیں۔ ان دونوں مسائل کو ایک ہی عالمی پلیٹ فارم پر ایک ساتھ پیش کرنا مسلم دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان ان کے مشترکہ مسائل پر ان کے ساتھ کھڑا ہے۔

​تقریر کا ایک اور اہم حصہ اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر روشنی ڈالنا تھا۔ شہباز شریف نے اس عالمی مسئلے کو انتہائی سنجیدگی سے پیش کیا اور اس کے خلاف ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا مطالبہ کیا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو آج پوری مسلم دنیا کو متاثر کر رہا ہے اور اس کے خلاف ایک مؤثر آواز بلند کرنا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پاکستان کو ہونے والے نقصانات پر بھی بات کی اور ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

​ان سب باتوں کے نتیجے میں مسلم امہ پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ سب سے بڑا نتیجہ یہ ہے کہ یہ تقریر مسلم دنیا میں ایک نئی یکجہتی کو جنم دے سکتی ہے۔ جب ایک ملک کشمیر اور فلسطین جیسے بنیادی مسائل کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اٹھاتا ہے تو یہ اسلامی ممالک کو اپنے مشترکہ مؤقف پر غور کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس سے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی جیسے فورمز کو بھی ایک نئی توانائی مل سکتی ہے، جہاں مسلم ممالک مل کر عالمی طاقتوں پر ان مسائل کے حل کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

​تاہم، اس کے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ کیا یہ تقریر محض ایک سفارتی بیان ثابت ہوگی یا اس کے بعد کوئی عملی اقدامات بھی کیے جائیں گے؟ مسلم امہ کی اپنی داخلی تقسیم اور مختلف ممالک کے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات بھی اس یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ صرف تقریریں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ انہیں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔

​اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کا خطاب ایک مؤثر اور بروقت اقدام تھا۔ یہ تقریر مسلم امہ کے درد اور مسائل کی آواز تھی، جسے انہوں نے نہایت جرات اور وضاحت کے ساتھ عالمی برادری کے سامنے پیش کیا۔ اب یہ مسلم دنیا پر منحصر ہے کہ وہ اس آواز کو ایک ٹھوس تحریک میں کیسے بدلتی ہے تاکہ وہ اپنے بنیادی مسائل کو حل کر سکے اور عالمی منظرنامے پر ایک مؤثر کردار ادا کر سکے۔

دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں مسلم ممالک کو اپنی بقاء اور عالمی سطح پر اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ حالیہ واقعات، خاص طور پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مسلم رہنماؤں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات، اس احساس کو مزید تقویت بخشتے ہیں کہ موجودہ عالمی ادارے ان کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ ایسے میں یہ سوچ زور پکڑ رہی ہے کہ کیا مسلم ممالک کو اپنا الگ سے اقوام متحدہ بنانا چاہیے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب "ہاں" اور "نہیں" دونوں میں موجود ہے۔

​اس تجویز کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اب انصاف کے بجائے طاقتور ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ فلسطین، کشمیر اور روہنگیا جیسے مسائل پر ان اداروں کی خاموشی یا کمزور ردعمل اس بات کا ثبوت ہے۔ ایک الگ مسلم اقوام متحدہ کا قیام مسلمانوں کے درپیش مسائل پر نہ صرف ایک مضبوط اور متحد آواز پیدا کرے گا بلکہ اسے ایک ایسا پلیٹ فارم بھی فراہم کرے گا جہاں ان کے تحفظات کو ترجیح دی جائے۔ یہ ادارہ ان کے درمیان اقتصادی، سیاسی اور دفاعی تعاون کو فروغ دے کر انہیں ایک ناقابل تسخیر قوت میں تبدیل کر سکتا ہے۔

​تاہم، اس تجویز کے عملی پہلوؤں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ مسلم ممالک کے درمیان موجود باہمی اختلافات اور داخلی کشمکش ہے۔ کئی مسلم ممالک کے اپنے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں اور وہ مختلف عالمی طاقتوں کے بلاکس کا حصہ ہیں۔ جب تک یہ اختلافات موجود ہیں، ایک مشترکہ اور مؤثر ادارہ قائم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے علاوہ، ایسے ادارے کو مالی وسائل اور عالمی قبولیت دلانے میں بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ ایک نئے عالمی ادارے کا قیام پہلے سے موجود مضبوط اداروں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت حاصل نہیں کر پائے گا، خاص طور پر جب تک اس کے پاس اقوام متحدہ جیسی قانونی اور اخلاقی بنیاد نہ ہو۔

​متبادل کے طور پر، مسلم ممالک کو موجودہ عالمی اداروں کے اندر رہتے ہوئے اپنی آواز کو بلند کرنے کے لیے ایک مضبوط بلاک بنانے پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا مقصد اقوام متحدہ اور اس جیسی دیگر تنظیموں کو اندر سے اصلاح کرنا اور ان پر دباؤ ڈال کر اپنے مسائل کو حل کرانا ہے۔ مثال کے طور پر، اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کو مزید فعال اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے تاکہ یہ ایک فیصلہ کن قوت بن سکے۔

​لہٰذا، صرف ایک نیا ادارہ قائم کرنا حل نہیں ہے، جب تک کہ مسلم ممالک اپنے اندرونی اختلافات کو ختم نہ کر لیں۔ اصل ضرورت ایک نئے ادارے کی نہیں بلکہ مضبوط ارادے اور اتحاد کی ہے۔ اگر مسلم ممالک اپنے مشترکہ مفادات کے لیے متحد ہو جائیں تو وہ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور قوت بن سکتے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari