Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sohail Bashir Manj
  4. Marti Umeedon Ka Noha

Marti Umeedon Ka Noha

مرتی امیدوں کا نوحہ

غزہ کی پٹی پر جاری خون کی ہولی کوئی نئی کہانی نہیں بلکہ یہ ایک طویل اور المناک تاریخ کا تازہ ترین اور سب سے خوفناک باب ہے اگرچہ یہ علاقہ دہائیوں سے تنازعات کا گڑھ رہا ہے لیکن حالیہ اور انتہائی تباہ کن جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہوا جب حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے جواب میں اسرائیلی افواج نے غزہ پر ایک وسیع فوجی آپریشن شروع کیایہ تنازع اس قدر خوفناک ثابت ہوا ہے کہ اس نے ماضی کی تمام جھڑپوں کی شدت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اسے اسرائیل کی تاریخ کا طویل ترین اور سب سے زیادہ نقصان دہ فوجی تنازع قرار دیا جا رہا ہے۔

جنگ کے خوفناک نتائج کو اعداد و شمار کی زبان میں بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، 67,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں یہ تعداد صرف ایک ہندسہ نہیں بلکہ ہزاروں ماؤں کی گودیں اجڑنے اور لاکھوں بچوں کا مستقبل تاریک ہو جانے کا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ، 169,000 سے زیادہ افراد زخمی اور ہزاروں اب بھی ملبے تلے دبے یا لاپتہ ہیں جن کے بارے میں بدترین خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب جنگ کے ابتدائی حملے میں 1139 سے زائد اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکت ہوئی اس جنگ نے دونوں اطراف کے خاندانوں کو غم اور صدمے سے دوچار کیا ہے۔

غزہ میں ہونے والا نقصان محض جانی نہیں، اسرائیلی حملوں نے غزہ کی پٹی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا اقوام متحدہ کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ غزہ کی دو تہائی سے زیادہ عمارتیں بشمول رہائشی عمارات ہسپتال، تعلیمی ادارے اور بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو چکے جو مکمل معاشرتی اور معاشی نظام کی تباہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ غزہ کی 90 فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے بنیادی ضروریات زندگی جیسے صاف پانی، خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے ایک بدترین انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔ یہ جنگ کسی ایک فریق کی جیت یا ہار کا قصہ نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کی اجتماعی ناکامی اور ایک ایسے

تنازعے کا نتیجہ ہے جس کا واحد حل صرف مستقل امن اور انصاف کی فراہمی میں مضمر ہے۔ غزہ کی اذیت ناک داستان عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے اور اس کا نقصان صرف غزہ کے باسیوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کے گہرے اور دیرپا اثرات پوری دنیا محسوس کرے گی۔ غزہ میں ہونے والی کوئی بھی جنگ بندی چاہے اسے "انسانی بنیادوں پر وقفہ" کہا جائے یا "مکمل سیز فائر"، ہمیشہ فلسطینی عوام کے لیے زندگی اور موت کا سوال رہی ہے جبکہ بین الاقوامی برادری کے لیے یہ ایک نازک سفارتی کامیابی ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حالیہ جنگ بندی ایک مستقل اور دیرپا امن کی بنیاد ڈالے گی یا یہ صرف عارضی طور پر لڑائی میں تعطل لائے گی، جس کے بعد تشدد کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھے گی؟ حقائق اور زمینی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ یہ عارضی وقفہ ہونے کا خطرہ زیادہ ہے البتہ یہ دیرپا امن کی طرف قدم بڑھانے کا ایک آخری موقع ہو سکتا ہے۔

سب سے بڑا خطرہ دونوں فریقین کے بنیادی سیاسی مقاصد میں پوشیدہ ہے حماس اور دیگر فلسطینی گروہ مکمل جنگ کے خاتمے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں اس کے برعکس اسرائیل کا بنیادی مقصد حماس کو مکمل طور پر ختم کرنا تمام یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور اپنی سکیورٹی فورسز کی غزہ پر کسی نہ کسی شکل میں نگرانی برقرار رکھنا ہے جب تک یہ متضاد مقاصد موجود رہیں گے کسی بھی جنگ بندی کی پائیداری پر سوالیہ نشان رہے گا۔

غزہ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے باوجود یہ توقع رکھنا کہ اسرائیل اپنے "گریٹر اسرائیل" یا وسیع تر سکیورٹی اور علاقائی عزائم سے دستبردار ہو جائے گا موجودہ سیاسی حقائق کی روشنی میں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر ایک عارضی سکیورٹی ترتیب ہے جو یرغمالیوں کے تبادلے اور انسانی امداد کی ترسیل کے لیے طے پایا ہے اس کا اسرائیل کے بنیادی نظریاتی اور طویل المدتی منصوبوں پر کوئی خاص اثر پڑتا نظر نہیں آتا۔

یہ معاہدہ اگرچہ ایک عارضی جنگ بندی کو یقینی بناتا ہے لیکن اس میں فلسطینی ریاست کے قیام یا مقبوضہ علاقوں کی حیثیت سے متعلق کوئی واضح ضمانت شامل نہیں ہے اسرائیل نے معاہدے کے بعد بھی غزہ کی سکیورٹی پر اپنے مکمل کنٹرول کے عزم کا اعادہ کیا ہے اس کے علاوہ مغربی کنارے میں آباد کاری کا عمل اور وہاں فلسطینیوں پر دباؤ مسلسل جاری ہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وسیع تر علاقائی عزائم سے دستبرداری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بین الاقوامی دباؤ کے تحت طے پانے والا یہ سیز فائر اسرائیل کے لیے اپنے داخلی اور خارجی سکیورٹی خدشات دور کرنے کے لیے ریلیف ہے، جب تک اسرائیل کے سیاسی ڈھانچے میں صیہونی نظریات کا غلبہ رہے گا اور دو ریاستی حل کو حکومتی سطح پر مسترد کیا جاتا رہے گا۔

غزہ کی حالیہ جنگ بندی کا مسئلہ فلسطین کے دیرپا اور جامع حل میں کردار فوری طور پر بہت محدود مگر بالواسطہ طور پر انتہائی اہم ہے یہ معاہدہ اپنی موجودہ شکل میں کوئی سیاسی حل پیش نہیں کرتا اور نہ ہی یہ فلسطینی ریاست کے قیام یا مقبوضہ علاقوں کی حیثیت سے متعلق کوئی فیصلہ کرتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک عارضی سکیورٹی میکانزم ہے جو خونریزی روکنے یرغمالیوں کو رہا کرانے اور غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ تاہم اس کے بالواسطہ اثرات مسئلہ فلسطین کو ایک نئی سمت دے سکتے ہیں سب سے پہلے جنگ بندی بین الاقوامی برادری کو دو ریاستی حل پر دوبارہ توجہ مرکوز کرنے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ فوجی کارروائیاں کسی بھی فریق کے بنیادی تنازع کو حل نہیں کر سکتیں یہ وقفہ سفارت کاروں کو ایک مستحکم سیاسی عمل شروع کرنے کے لیے ضروری وقت فراہم کرتا ہے۔ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو مسلم امہ عالمی برادری پر دباؤ بڑھاتے ہوئے دو ریاستی حل کی طرف آئے تاکہ فلسطینیوں کو سکون کی سانس نصیب ہو سکے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari